محکمہ قرنطینہ کی لاپرواہی، خراب ایرانی پھلوں کی پاکستان میں ڈمپنگ

پاکستانی سیب کی بمپر فصل کے باوجود بیوپاریوں اور کاشتکاروں کو ایرانی سیب اور دیگر پھلوں کے سونامی کا سامنا ہے۔ پاکستانی پھلوں کے لیے ایرانی مارکیٹ بند پڑی ہے، ایرانی حکام پاکستانی پھلوں کے لیے امپورٹ پرمٹ جاری نہیں کررہے، اس کے باوجود پاکستانی منڈی میں بڑے پیمانے پر ایرانی پھل ڈمپ کیے جارہے ہیں جس سے ایران کے ساتھ پاکستانی تجارت کو خسارے اور مقامی کاشتکاروں، بیوپاریوں اور اسٹاکسٹس کو شدید نقصان کا سامنا ہے۔ آل پاکستان فروٹ اینڈویجیٹیبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے ذرائع کے مطابق مسلسل تیسرے سال ایران سے سیب کی بڑے پیمانے پر درآمد سے بلوچستان کے کاشتکاروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ رواں سیزن کے دوران پاکستان میں سیب کی پیداوار 14 لاکھ ٹن سے زائد رہنے کا اندازہ لگایا گیا ہے جو اب تک کی سب سے بھرپور فصل ہے تاہم مقامی مارکیٹ میں ایرانی سیب کی آمد شروع ہوگئی ہے، ایرانی سیب پاکستانی سیب سے کم داموں پر فروخت کیا جارہا ہے اور ایرانی سیب میں خاص قسم کے ایرانی فنگس کی شکایت بھی موجود ہے تاہم پاکستانی قرنطینہ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہا۔پاکستان میں سیب کی پیداوار بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کی جاتی ہے اور بنیادی طور پر 3 قسم کے سیب بڑے پیمانے پر پیدا ہوتے ہیں جن میں گاجا، گولڈن اور سفید کلو شامل ہیں، گاجا کا سیزن ختم ہوچکا، مارکیٹ میں اس وقت گولڈن سیب فروخت کیا جارہا ہے جبکہ سفید کلو سیب کی بھرپور فصل آئندہ ماہ مارکیٹ میں آنے والی ہے تاہم اس سے قبل ہی ایرانی سیب کی درآمد شروع کردی گئی ہے، ایران سے سیب کے علاوہ انگور بھی وافرمقدار میں درآمد کیے جارہے ہیں جبکہ کیوی کی درآمد بھی جاری ہے، پاکستانی پھل کینو اور آم کے لیے ایرانی منڈی بند ہوچکی ہے۔ ایرانی قرنطینہ حکام نے کڑی شرائط عائد کررکھی ہیں جن میں کینو کے لیے کولڈ ٹریٹمنٹ اور آم کے لیے ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ کی شرائط شامل ہیں جبکہ 95فیصد تک درآمدی ڈیوٹی بھی عائد ہے، اس کے برعکس ایرانی پھل پاکستان میں بلا روک ٹوک قرنطینہ اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ڈمپ کیے جارہے ہیں، گزشتہ سال ایران سے پاکستانی مارکیٹ میں 1.5 لاکھ ٹن سے زائد سیب ڈمپ کیے گئے، اس سال ایرانی سیب کی درآمد حال ہی میں شروع کی گئی ہے۔ پاکستانی بیوپاریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایرانی پھلوں کی درآمد پر قرنطینہ قوانین کا اطلاق کیا جائے بصورت دیگر بلوچستان کی زرعی معیشت تباہ ہوجائے گی اور نتیجے میں بیروزگاری اور تخریب کاری کی شدت میں اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تبصرے بند ہیں.