پرانی گاڑیوں کی درآمدصنعت کے ساتھ حکومت کیلیے بھی نقصان دہ

کراچی: پرانی گاڑیوں کی درآمد کے حوالے سے حکومتی پالیسی کے اثرات مقامی آٹو انڈسٹری مسلسل بھگت رہی ہے، اس پالیسی کے تحت سمندر پار پاکستانیوں کے لیے گفٹ اسکیم کی آڑ میں بڑے پیمانے پر گاڑیاں درآمد کی جاتی رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق پرانی درآمدی گاڑیوں کے بارے میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ یہ گاڑیاں سستی، بہتر استعداد کی حامل، لگژری سہولتوں اور مختلف جدید خصوصیات کی وجہ سے مقامی گاڑیوں کے مقابلے میں بہتر انتخاب ثابت ہوں گی، اس کے برعکس ان گاڑیوں کی وجہ سے مقامی انڈسٹری کو کڑے دور سے گزرنا پڑا، اس پالیسی کے الٹے اثرات حکومت پر بھی پڑے اور قومی آمدن و معیشت کو نقصان پہنچا، اس وقت جب حکومت کو ادائیگیوں کے توازن میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو پرانی گاڑیوں کی درآمد پر حکومت کا قیمتی زرمبادلہ بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ ایس آر او 577 کے تحت پرانی گاڑیوں کا ڈیوٹی اسٹرکچر موجودہ مارکیٹ قیمت کے نصف پر نافذ کیا گیا تھا اور یہ قیمت 2005 میں متعین کی گئی تھی، ایس آر او کے ذریعے انہیں 36 فیصد فرسودگی الاؤنس بھی دیا گیا ہے۔ڈی جی پاما کے مطابق اتنی کم قیمت پر 36 فیصد فرسودگی الاؤنس اس کی قیمت اور گاڑیوں کی فریٹ پرائس کو دیکھتے ہوئے قابل افسوس ہے۔ ایس آر او 577 کے تحت ڈیوٹی سال 2005 میں نافذ کی گئی تھی جب ڈالر 120 ین کے برابر تھا اب 97ین کا ہے، اس فرق کو درآمدی ڈیوٹی میں شامل نہیں کیا گیا، مثال کے طور پرپرانی ٹیوٹا وٹز (801-1000cc) جس کی قیمت اندازاً 16800 ڈالراور ڈیوٹی اور ٹیکسز 5500 ڈالر ہیں جبکہ 36 فیصد فرسودگی الاؤنس کو شامل کیا جائے تو اس پر ڈیوٹی اور ٹیکسز 3520 ڈالر بنتے ہیں جس سے حکومت کو سراسر نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔

تبصرے بند ہیں.