چیف جسٹس11دسمبر کو ریٹائر جبکہ اگلے روز جسٹس تصدق حسین عہدہ سنبھالیں گے

اسلام آ باد: حکومت کیلیے اعلیٰ آئینی عہدوں پرتقرریو ںکا عمل 11دسمبرکوموجودہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ اوراگلے دن نئے چیف جسٹس کی تقرری کے ساتھ مکمل ہو جائیگا۔ اگلے ماہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اورنومبر میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعدوزیراعظم صوابدیدی اختیارکے تحت معیارپر پورا اترنے والے موزوں شخص کو یہ ذمے داری دینے کے مجازہیں لیکن چیف جسٹس کی تقرری میں وہ سب سے سینئرترین جج کومقرر کرنے کے پابندہیں،الجہادٹرسٹ اور ملک اسدکیس کے فیصلے میں فل کورٹ نے حکومت کو پابند کیا ہے کہ سینئر ترین جج ہی چیف جسٹس مقرر ہوگا،چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعدجسٹس تصدق حسین جیلانی سینئرترین جج ہونے کے ناطے ملک کے 21ویںچیف جسٹس ہونگے۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے چیف جسٹس سر عبدالرشید تھے جو 27جون 1949کوتعینات اور28جون 1954کوریٹائر ہوئے، جسٹس محمد منیر نے اگلے روزچیف جسٹس کا حلف اٹھایا اور دو مئی 1960تک تعینات رہے۔ جسٹس محمد منیر ملک کے سب سے متنازعہ چیف جسٹس رہے کیونکہ ان کے دور میں نظریہ ضرورت متعارف ہوا، پہلے انہوں نے گورنر جنرل غلام محمدکے اس اقدام کو عدالتی توثیق فراہم کی جس میں انہوں نے وزیر اعظم ناظم الدین کو برطرف کیا تھا اور پھر ایک اور فیصلے میں مارشل لاء کو اس بنیاد پر تحفظ دیا کہ اگرکوئی انقلاب کامیاب ہو جائے تو وہ خود بخود جائز ہو جاتا ہے۔جسٹس محمد منیرکے بعد جسٹس محمد شہاب الدین تین مئی 1960کو مقرر ہوئے اورصرف نو روزبعد 12مئی 1960کو سبکدوش ہوئے، ان کے بعد جسٹس اے آرکارنیلس چیف جسٹس بنے اور آٹھ سال اس عہدے پر براجمان رہے۔جسٹس کارنیلس کو پاکستان کی عدالتی تاریخ میں منفرد مقام حاصل ہے۔ جسٹس کارنیلس کے بعد جسٹس ایس اے رحمان یکم مارچ1968کو چیف جسٹس مقرر ہوئے اور3جون کو ریٹائر ہوئے۔انکے بعد جسٹس فضل اکبر چار جون کو مقرر ہوئے اور سترہ نومبر 1968کو ریٹائر ہوئے۔جسٹس حمود الرحمان اٹھارہ نومبر 1968کو چیف جسٹس بنے اور اکتیس اکتوبر 1975تک فائز رہے۔جسٹس یعقوب علی خان یکم نومبر 1975کو چیف جسٹس بنے اور مارشل لاء کے نفاذکے بعد جنرل ضیاء نے ججوںکی عمر میں کمی کرکے انہیں بائیس ستمبر1977کو فارغ کیا۔جسٹس یعقوب علی خان اس بینچ کے سربراہ بھی تھے جس نے مشہور عاصمہ جیلانی کیس میں جنرل یحیٰی خان کو غاصب قراردیا تھا،جسٹس انوارالحق تئیس ستمبرکو چیف جسٹس بنے اورپچیس مارچ 1981کوجنرل ضیاء کی طرف سے عبوری آئینی حکم کے اجرا پر سبکدوش ہوئے،جسٹس انوار الحق اس بینچ کے سربراہ تھے جس نے ملک کے منتخب وزیر اعظم کی سزائے موت کافیصلہ بر قرار رکھا تھا اور موصوف ان اکثریتی ججوں میں شامل تھے جو سزا کے حق میں تھے۔جسٹس حلیم صدیقی نے پچیس مارچ کو پی سی او کے تحت چیف جسٹس کا حلف اٹھایا اور اکتیس دسمبر 1989کو ریٹائرہوئے۔انکے بعد جسٹس افضل ظلہ یکم جنوری 1990کو چیف جسٹس مقرر ہوئے اور اٹھارہ اپریل1993 کوریٹائر ہوئے، جسٹس افضل ظلہ نے پہلی مرتبہ ازخود نوٹس لینے کا سلسلہ شروع کیا اور سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہواکہ تمام دائر درخواستیں نمٹا دی گئیں اورکوئی پرانا کیس زیر التوا نہیں رہاتھا۔جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ سترہ اپریل1993 کو چیف جسٹس مقرر ہوئے اور چودہ اپریل1994تک عہدے پر رہے،انکی سربراہی میں سپریم کورٹ نے پہلی مرتبہ کسی تحلیل شدہ اسمبلی کو بحال کیا۔چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے دو مہینے کی تاخیر کے بعد سینئر ججوں کو نظر اندازکرکے پندرہ جون 1994کو جسٹس سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس مقررکیا، چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں فل کورٹ نے مشہور الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے میں طے پایا کہ سینئر ترین جج چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس بنیں گے۔ اس فیصلے کی رو سے چاروں ہائیکورٹس کے بہت سارے جج عہدوں سے فارغ ہوگئے تاہم اس فیصلے کا اطلاق چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر نہیںکیا گیا جس کی وجہ سے بعد میں سپریم کورٹ تقسیم ہوگئی اور ایک ساتھ دو سپریم کورٹ کام کررہی تھیں۔جسٹس سعیدالزمان صدیقی کی سربراہی میں بینچ نے جسٹس سجاد علی شاہ کی چیف جسٹس تقرری کالعدم کر دی تھی۔ دو دسمبر1997کووہ عہدے سے فارغ ہوئے اور اگلے دن جسٹس اجمل میاں نے چیف جسٹس کا حلف اٹھایا وہ تیس جون 1999کو ریٹائر ہوئے،جسٹس سعید الزمان صدیقی نے یکم جولائی1999کو چیف جسٹس کا حلف لیا اور چھبیس جنوری 2000کو جنرل مشرف کے ایل ایف اوکے تحت حلف لینے سے انکارکیا، اسی دن جسٹس ارشاد حسن خان نے چیف جسٹس کا حلف اٹھایا اور چھ جنوری 2002کو ریٹائر ہوئے، جسٹس بشیر جہانگیری چوبیس دنوں کیلئے چیف جسٹس بنے اور اکتیس جنوری دوہزار دوکو ریٹائر ہوگئے،جسٹس شیخ ریاض احمد نے یکم فروری کو چیف جسٹس کا حلف لیااوراکیس فروری 2003کو ریٹائرہوئے، جسٹس ناظم حسین صدیقی اکتیس دسمبر2003 کو چیف جسٹس بنے اورنو جون 2005کو ریٹائر ہوئے۔ چیف جسٹس ناظم صدیقی عہدے پربرقرار تھے کہ پرویز مشرف نے موجودہ چیف جسٹس کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں یہ وضاحت کی گئی کہ چیف جسٹس ناظم صدیقی کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس افتخار چوہدری نئے چیف جسٹس ہونگے۔ایسا ملک کی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھا کیونکہ جنرل(ر) پرویز مشرف نے ایل ایف او میں سپریم کورٹ کے ججوںکی ریٹائرمنٹ کی عمر65سال سے بڑھا کر68 برس کردی تھی اوراس وقت موجودچیف جسٹس کام جاری رکھنے پر اصرار کررہے تھے۔سینیٹر ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کچھ جج اس صورتحال سے خوش نہیں تھے اوروہ جنرل مشرف کے ساتھ رابطے میں تھے، بقول ایس ایم ظفر ان کی رائے پر اگلے چیف جسٹس کا نوٹیفکیشن کرکے اس مباحثے کو ختم کیا گیا تھا۔

تبصرے بند ہیں.