کرکٹ بورڈز کی لڑائی میں پلیئرز کا نقصان ہونے لگا

ڈھاکا: پاکستان اور بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈز کی لڑائی میں پلیئرز کا نقصان ہونے لگا، بی پی ایل کی کمائی سے محروم رہنے والے پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے اب ڈھاکا پریمیئر لیگ سے بھی مال کمانا دشوار ہوگیا، کلبز بھی گھن چکر بن کر رہ گئے۔ پی سی بی کا اصرار ہے کہ بنگلہ دیش کی جانب سے رسمی رابطے پر ہی کھلاڑیوں کو ریلیز کرنے پر غور کیا جائے گا، دوسری جانب بی سی بی بھی بدستورضد پر اڑا ہوا ہے، صدر نظم الحسن کا کہنا ہے کہ ہم کوئی درخواست نہیں کریں گے، انھوں نے اپنے کھلاڑیوں کو این او سی دینی ہے تو دیں ہمیں کوئی پروا ہ نہیں۔ تفصیلات کے مطابق پی سی بی اور بی سی بی کی لڑائی کا براہ راست نقصان پاکستانی کرکٹرز کو ہورہا ہے،ان پر ویسے ہی آئی پی ایل کے دروازے بند جبکہ دوسرے ممالک میں کھیلنے کے محدود مواقع میسر ہیں، ایسے میں وہ بنگلہ دیش میں جاکر ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر ہی کچھ رقم حاصل کرلیتے تھے، مگر جب سے دونوں بورڈز کے حالات خراب ہوئے یہ ذریعہ معاش بھی چھن گیا ہے۔پی سی بی نے بنگلہ دیش کی جانب سے ٹور سے انکار پر اپنے کھلاڑیوں کو پریمیئر لیگ میں کھیلنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا، اس وقت بھی پلیئرز کو کافی نقصان ہوا تھا، ماضی میں وسیم اکرم، محمد یوسف، شاہد آفریدی، مصباح الحق سمیت کئی کھلاڑی بنگلہ دیشی ایونٹس میں حصہ لیتے رہے ہیں، اب آئی سی سی کے نئے قوانین کے تحت کسی بھی دوسرے ملک میں کرکٹ کھیلنے کیلیے پلیئرز پر اپنے بورڈ کا این او سی حاصل کرنا لازم قرار دے دیا گیا ہے، اس سے قبل ڈھاکا لیگ کھیلنے کے خواہشمند پلیئرز اپنی مقامی ایسوسی ایشنز اور ڈپارٹمنٹ کے لیٹر جمع کرکے کھیلنے کا پروانہ حاصل کرلیتے تھے، ڈھاکا لیگ کے کلبز نے جب پاکستانی پلیئرز کو این او سی دلوانے کیلیے اپنے بورڈ سے رابطہ کیا تو وہاں سے صاف انکار کردیا گیا۔ بی سی بی کے صدر نظم الحسن کا کہنا ہے کہ پچھلی بار پی سی بی آخری لمحات میں اپنے پلیئرز کو بی پی ایل میں بھیجنے سے انکار کرچکا جس سے ہماری مشکلات بڑھیں اور اس بار بھی اس نے ایسا کیا تو کیا ہوگا؟ ویسے بھی اگر انھیں اپنے پلیئرز کو این او سی جاری کرنے ہیں تو کریں ، ہم ان سے کوئی درخواست نہیں کریں گے۔ دوسری جانب پی سی بی کا کہنا ہے جب تک انھیں میزبان بورڈ کی رسمی درخواست نہیں ملے گی وہ معاملے پر غور نہیں کرسکتے، پلیئرز نے براہ راست رابطہ کیا مگر ان کے پاس بنگلہ دیشی آرگنائزرز یا بورڈ کا کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں.