کھاد پلانٹ بندش سے حکومت پر 452 ارب کا بوجھ پڑے گا
کراچی: حکومت کو معیشت کے کسی شعبے کو بند کرنے کے بجائے مختلف سیکٹرز کے لیے گیس کے استعمال کو فائدہ مند اوراس کے اخراجات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ فرٹیلائزر مینوفیکچررز پاکستان ایڈوائزری کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شہاب خواجہ نے بدھ کو جاری کردہ اعلامیے میں کہا کہ اگر حکومت نے ملکی 6.9 ملین ٹن کی پیداواری گنجائش کے 7 فرٹیلائزر پلانٹس کو مکمل طور پر گیس بند کر دی تو یوریا درآمد اور ان پر سبسڈی کے لیے سالانہ 452 ارب روپے خرچ کرنے ہوں گے، 6 ملین ٹن درآمدی یوریا پر تقریباً 312 ارب روپے لاگت آتی ہے اور درآمدی یوریا کو مقامی یوریا کی قیمت پر فروخت کرنے کے لیے حکومت کو مزید 140 ارب روپے سبسڈی پر خرچ کرنے پڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر فرٹیلائزر سیکٹر کو گیس فراہم کی جائے تو ملکی ضرورت کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کھاد برآمد بھی کر سکتا ہے، ملک میں ضرورت سے زائد کھاد تیار کی جا سکتی ہے۔ فرٹیلائزر انڈسٹری کے خلاف ایک پروپیگنڈے کے جواب میں شہاب خواجہ نے کہا کہ روزانہ 4.3 ارب کیوبک فٹ گیس میں سے فرٹیلائزر سیکٹر کے لیے صرف 818 ایم ایم سی ایف ڈی گیس ہے لیکن اس میں بھی صرف ماری اور سوئی سدرن گیس کمپنی نیٹ ورک سے 600 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فرٹیلائزر پلانٹس کو مل رہی ہے جبکہ باقی 240 ایم ایم سی ایف ڈی گیس سوئی ناردرن گیس کمپنی کے نیٹ ورک پر ہے لیکن 2012 میں سوئی ناردرن گیس کمپنی کے نیٹ ورک پر موجود 4 فرٹیلائزر پلانٹس کو 300 سے زائد دن گیس بند رہی۔شہاب خواجہ نے کہا کہ ماری نیٹ ورک کی گیس لو ایم ایم بی ٹی یو گیس (کم معیار) ہے جوبجلی کی پیداوار اور گھریلو استعمال کے قابل نہیں ہے، اس کم معیار ایم ایم بی ٹی یو گیس کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ملکی فرٹیلائزر پلانٹس استعمال کر رہے ہیں، فرٹیلائزر سیکٹر کے لیے مختص گیس 7 فرٹیلائزر پلانٹس کے لیے نہیں بلکہ یہ زرعی شعبے کے لیے ہے جو ملکی جی ڈی پی کا 21.4 فیصد ہے اور 19 کروڑ افراد کی فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بناتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ مفاد پرست عناصر فرٹیلائزر پلانٹس بند کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، اگر فرٹیلائزر پلانٹس مکمل طور پر بند کر دیتے ہیں تو نہ صرف 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا نقصان ہوگا بلکہ قومی خزانے کو ٹیکس کی مد میں سالانہ 28 ارب روپے کا نقصان بھی ہوگا، فرٹیلائزر کمپنیاں اسٹاک ایکسچینج میں بھی لسٹڈ ہیں اور اربوں ڈالر کی مارکیٹ ویلیو رکھتی ہیں، ان پلانٹس کی بندش سے سرمایہ کاروں کو نقصان، ان کا اعتماد ختم، بینک ڈیفالٹس کے ساتھ ساتھ حکومت کے نجکاری پروگرام پر بھی منفی اثرات مرتب کرے گا۔ شہاب خواجہ نے کہا کہ مقامی طور پر کھاد پیدا کرنے سے ملک سالانہ اربوں ڈالر بچا سکتا ہے اور کسانوں کو کم قیمت پر کھاد فراہم کی جا سکتی ہے جس سے فصلوں کے پیداواری اخراجات کنڑول کر سکتے ہیں، 2012 میں مقامی کھاد اور درآمدی کھاد کی اوسط فرق فی بیگ قیمت 1015 روپے تھی۔ انہوں نے کہا کہ یوریا توانائی کی ایک شکل ہے، درآمدی یوریا کی قیمت انرجی کے دیگر اقسام کول اور فرنس آئل کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے، 2009 میں ملک میں کھاد کا استعمال 6.9 ملین ٹن تک پہنچ چکا تھا جو جی ایس ٹی، جی آئی ڈی سی کے نفاذ اور سوئی ناردرن گیس کمپنی کے نیٹ ورک پر موجود 4 فرٹیلائزر پلانٹس کو 88 فیصد گیس بندش کی وجہ سے کھاد کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے 2012 میں کم ہو کر 5.3 ملین ٹن ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت معیشت کے کسی شعبے کو بند کرنے کے بجائے مختلف سیکٹرز کیلیے گیس کے استعمال کو فائدہ مند اوراس کے اخراجات پر توجہ مرکوز کرے۔
تبصرے بند ہیں.