24 ہزار ارب قرض، وزیراعظم کا اعلیٰ سطح کا انکوائری کمیشن بنانیکا اعلان

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک میں قانون کی بالادستی نظر آ رہی ہے۔ ایک اعلیٰ سطح کا کمیشن بنا رہا ہوں جو ملکی قرضوں کی چھان بین کرے گا۔ حکومت پر تنقید کرنے والوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ یہ دھمکیاں کسی اور کو لگانا۔ میری جان بھی چلی جائے میں ان ڈاکوئوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ اسمبلیوں میں جو بھی کہیں میں ان کو نہیں چھوڑوں گا۔ پاکستان عظیم ملک بننے جا رہا ہے۔ تمام انسان قانون کے تابع ہیں۔ کسی کے دبائو میں آ کر این آر نہیں دونگا۔ ملک آج این آر او کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ بلیک میلنگ میں نہیں آؤں گا۔ ملک مستحکم ہو گیا اب ان کے پیچھے جائوں گا۔ ان لوگوں کو شرم نہیں کہ پاکستانیوں کے کیا حالات ہیں۔ تحریک انصاف حکومت کی طرف سے پیش کیا گیا بجٹ نئے پاکستان کے نظریے کا عکاس ہے۔پاک فوج نے قربانیوں کے باوجود رضاکارانہ بجٹ میں اضافہ نہیں لیا اس پر انہیں خراج تحسین اور سیلوٹ پیش کرتا ہوں۔قوم سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کی 100 ارب روپے کی منی لانڈرنگ سامنے آئی، ان کے اکاؤنٹ میں تین ارب روپے آئے جو خاتون 5 لاکھ ڈالر لیکر یبرون ملک جارہی تھی انہوں نے 75 بیرون ملک دورے کیے۔ پاکستان سے بیرون ملک اکاؤنٹس کا پتہ لگا لیا ہے، صرف دس ارب ڈالر پاکستانیوں کے باہر پڑے ہیں، کسی نے منی لانڈرنگ کے حوالے سے نہیں روکا۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں منی لانڈرنگ کی۔ مشرف کے 8 سالہ دور میں صرف دو ارب ڈالر کا مقروض ہوا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چیئر مین ایف بی آر شبر زیدی اور میں ملکر کام کریں گے، ایف بی آر کو ٹھیک کروں گا۔ پاکستان میں پیسے اکٹھے کر کے دکھاؤں گا، ادارے کے مسائل حل کروں گا۔ بیرون ملک پاکستانیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ملک کو مسائل سے نکالیں، ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھا لیں، 30 جون کے بعد سب کچھ ضبط ہو جائے گا۔ لہٰذا قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ اس کا فائدہ اٹھا لیں۔ ملک میں دس ہزار ارب روپے آرام سے اکٹھا کر لیں گے۔ ان پیسوں سے غربت سے عوام کو نکال سکتے ہیں، ہسپتال، انفراسٹرکچر اور سکول بھی بنا سکتے ہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے دو این آر او لیکر ملک کو مقروض کیا اور بیدردی سے لوٹا۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر ہمارے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں۔ 90 کی دہائی میں دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کو غلط کہتے تھے۔ کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ بڑے بڑے سیاستدان جیلوں میں جائینگے۔ نوازشریف پر پانامہ کیس ہم نے نہیں بنائے، آصف زرداری کیخلاف جعلی اکاؤنٹس بھی تحریک انصاف کی حکومت نے نہیں بنائے، یہ 2016ء میں سابق وزیر داخلہ چودھری نثار نے بنائے۔ان کا کہنا تھا کہ ملک کے مسائل اتنے ہیں کہ آٹھ ماہ کے دوران صرف آٹھ چھٹیاں کیں۔ اپوزیشن والے افراتفری پھیلا رہے ہیں کہ ملک برباد ہو رہا ہے۔ کہتے تھے روپیہ گر رہا ہے، یہ لوگ نالائق ہیں۔ ان کو کہنا چاہتا ہوں میرے اوپر پریشر ختم ہو گیا ہے۔ اب ایک کمیشن بنا رہا ہوں جو 24ہزار ارب روپے قرض کے بارے میں پتہ چلایا جائے گا کہ انہوں نے کس طرح پیسہ لوٹا۔ کمیشن میں ایف آئی اے، ایف بی آر، آئی ایس آئی، آئی بی سمیت دیگر ادارے شامل ہونگے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے لیڈران نے پیسہ حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے باہر بھیجا، حمزہ شہباز، شہباز شریف کو پیسے ٹی ٹی کے ذریعے بیرون ملک سے آئے۔ شہباز شریف کے تینوں بیٹوں نے تین ارب روپے سے زائد کی منی لانڈرنگ کی۔ ان لوگوں کی دولت 85 فیصد بڑھی۔ چار کمپنیوں سے تیس کمپنیاں بنائیں۔ اسحق ڈار بیرون ملک مفرور ہیں۔ نواز شریف کے بچے کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی شہری نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میثاق جمہوریت کی وجہ سے ملک کو نقصان پہنچا،2008ء سے لیکر 2018ء تک 6 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر قرضہ 30 ہزار ارب روپے تک پہنچا۔ جو لوگ ججوں کو ٹیلیفون کر کے کہتے تھے ایسے کرو وہ لوگ جو ججوں پر حملے کرتے تھے آج جیل میں ہیں۔ ملک میں عدلیہ آزاد ہے، عمران خان عدلیہ کو کچھ کر سکتا ہے اور نہ ہی نیب کو کر سکتا ہے۔ نیب اپوزیشن والوں نے مل کر بنایا تھا اس وقت تحریک انصاف کی حکومت نہیں تھی۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آج پہلا بجٹ تحریک انصاف کی حکومت نے پیش کیا۔ نیا پاکستان نبی کے اصولوں پر بنے گا، مدینہ کی ریاست میں سب کے برابر تھے، مدینہ کی ریاست ایک ماڈل ریاست تھی۔ مدینہ کی ریاست میں میرٹ تھا۔ ریاست مدینہ کا سب سے بڑا اصول حکمران جوابدہ ہوتا ہے۔ تمام انسان قانون کے تابع ہیں۔ پاکستان ایک عظیم ملک بننے جا رہا ہے۔ مدینہ کی ریاست میں انسان کی قدر تھی، کمزوروں کے ساتھ تھی، مدینہ کی ریاست میں احساس تھا۔ مدینہ کی ریاست کی وجہ سے مسلمانوں نے دنیا کی امامت کی۔بجٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم میں غریبوں کو گھر دیں گے، پناہ گاہیں ان کی مثال ہے، اپنے گھر کا خرچہ میں خود کرتا ہوں، مجھے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ میں اپنے گھر میں رہتا ہوں، صاحب اقتدار امیر اور عوام غریب ہیں۔ سول حکومت 50 ارب روپے کی بچت کر رہی ہے۔ صنعتیں جو بند ہو رہی تھیں ان کے لیے 100 ارب روپے کیساتھ ان کی مدد کر رہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.