چیئرمین بورڈ کی وزیر اعظم سے ملاقات21 جون کو ہوئی تھی،ذرائع کے مطابق پی سی بی کی جانب سے ہی میڈیاکو ایکسٹینشن کے حوالے سے خبر فیڈ کی گئی تھی،اب تاخیر پر مسلسل خاموشی طاری ہے۔بورڈ کے ایک اعلیٰ افسر نے نوٹیفیکیشن کے حوالے سے جب حکومت کو خط تحریر کیا تو سخت جواب آیا کہ انھیں یہ پوچھنے کا اختیار حاصل نہیں ہے، قومی ٹیم کی انگلینڈ میں ناقص کارکردگی کے بعد کشمیر پریمیئر لیگ کے معاملات کو جس طرح بورڈ نے مس ہینڈل کیا اس پر بعض اعلیٰ شخصیات خوش نہیں ہیں۔ایک طرف بھارت کی جانب سے غیرملکی کرکٹرز پر لیگ میں حصہ نہ لینے کیلیے دباؤ ڈالا گیا دوسری جانب پی سی بی نے خود اپنے سینٹرل کنٹریکٹ یافتہ کھلاڑیوں کو بھی ریلیز کرنے سے انکار کردیا، پی ایس ایل فرنچائززکوکے پی ایل کے حوالے سے جو ای میل بھیجی گئی اس میں بھی الفاظ کا درست چناؤ نہیں کیا گیا تھا۔بعض حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت چیئرمین کے حوالے سے چند دیگر ناموں پر بھی غور کر رہی ہے، البتہ اس حوالے سے جب پی سی بی کے ایک آفیشل سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور احسان مانی کے بہت پرانے تعلقات ہیں اور وہ ان پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ اگر چیئرمین خود مزید ذمہ داری سنبھالنے میں دلچسپی نہیں رکھیں تو الگ بات ہے ورنہ انھیں ہٹانے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔یاد رہے کہ وزیر اعظم نے 20 اگست 2018 کواحسان مانی کو بطور چیئرمین کرکٹ بورڈ نامزد کیا تھا،4 ستمبر کو رسمی انتخابات کے بعد ان کا 3 برس کیلیے تقرر ہوا، ان کے دور میں قومی ٹیم کی کارکردگی زوال پذیر ہوئی،پی ایس ایل بھی مسلسل مسائل کا شکار ہے،البتہ انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا جو سفر سابقہ بورڈ حکام نے شروع کیا تھا اسے کامیابی سے جاری رکھا گیا
تبصرے بند ہیں.