چند جملوں پر دیرینہ موقف بھلانا باوقار ادارے کے شایان شان نہیں، جماعت اسلامی

جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے وزیراعظم نوازشریف کو خط ارسال کر دیا ہے۔ یہ خط بذریعہ ٹی سی ایس اسلام آباد اور دستی وزیراعظم ہاؤس جاتی عمرہ اور ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن بھیجا گیا ہے، جماعت اسلامی کی طرف سے وزیراعظم کو بھیجے جانے والے خط کا متن درج ذیل ہے ۔محترم جناب میاںمحمد نواز شریف صاحب وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام آبادالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔امیرجماعت اسلامی سیدمنورحسن کے دو بیانات کو بنیاد بنا کر ذرائع ابلاغ کے ذریعے جو مصنوعی اور گمبھیر فضا تیار کی گئی تھی اس میں پاکستان کے مؤقر قومی ادارے افواج پاکستان نے (بذریعہ آئی ایس پی آر) براہ راست ایک سیاسی جماعت کو جس انداز میں چارج شیٹ کیا، اس نے جماعت اسلامی کو مجبور کیا کہ اس پورے منظر نامے میں آپ کو بطور سربراہ حکومت مخاطب کیاجائے۔ جماعت اسلامی پاک فوج کے پورے احترام اور اس کی قربانیوں کے اعتراف کے باوجود اصولی بنیاد پر یہ سمجھتی ہے کہ افواج پاکستان سمیت تمام اداروں کو آئینی اور قومی سطح پران مسلمہ حدود کا پابند ہونا چاہیے جنھیں پاکستانی عوام کے اتفاق رائے، قومی نمائندوں کے اجماع نے 1973 کے متفقہ دستور کی شکل میں طے کردیا ہے، پاکستان کی گزشتہ 60سالہ تاریخ اداروں کی اسی بے بسی اور طالع آزمائی کا بیک وقت شاہکار ہے، باشعور عوام ، آزاد عدلیہ اور میڈیا نے ایک تاریخی جدوجہد کے بعد اداروں کو اپنی حدود کا پابند بنانے کی کوشش کی ہے اور یہ جدوجہد بھی قوم سے مزید استحکام کا تقاضا کرتی ہے۔ افواج پاکستان کے ترجمان کا براہ راست ایک سیاسی و مذہبی جماعت کو مخاطب کرنا (جس کی ماضی میں کوئی نظیرنہیں ملتی) مسلمہ دستوری تقاضوں سے ماورا دکھائی دیتا ہے، پاکستان میں مختلف عناصر، افراد اور اداروں کی طرف سے شدید قسم کی بے قاعدگیاں، تجاوز، استحصال اور اظہار ہماری تاریخ میں جا بجا دکھائی دیتے ہیں مگر اس پر کبھی بھی اس انداز میں مؤقر اداروں نے سوال نہیں اٹھائے !!!جماعت اسلامی ایک سیاسی ، جمہوری اور آئینی جماعت ہونے کے ناطے اپنے آپ کو عوام اور قانون کی عدالت میں جوابدہ سمجھتی ہے، ہمارے سیاسی نمائندے وطن عزیز کے ہر پلیٹ فارم پر اس جوابدہی کیلیے تیار ہیں مگر یہ جوابدہی انھی قواعد و ضوابط کے تحت ہونی چاہیے جسے پاکستان کے مسلمہ دستوراور جمھوری روایات نے متعین و منضبط کردیا ہے۔ آپ خود ، پوری قوم اور ملک کے تمام انتظامی اور عسکری ادارے آگاہ ہیں کہ جماعت اسلامی کی قومی سلامتی، بیرونی مداخلت کی مزاحمت اور دفاع وطن کیلیے لازوال قربانیاں ہیں۔ مشرقی پاکستان میں کارکنان کی وحدت پاکستان اور بھارتی جارحیت کے خلاف قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں، اس جرم میں آج بھی بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے کارکنان اور قیادت حب الوطنی اور اسلام سے محبت کی وجہ سے مظالم اور سزائیں بھگت رہے ہیں، اس حوالے سے جماعت اسلامی پر تنقید کرنیوالے حقیقت میں افواج پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظمؒ کے فرمان کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے کشمیر کو پاکستان کیلیے رگِ جاں قرار دیا۔ جموں،کشمیر ،گلگت و بلتستان میں جماعت اسلامی کی قربانیوں ،نوجوانوں کے پاکیزہ خون کے نذرانوں، کشمیری قیادت کی آزادی اور حقِ خودارادیت کیلیے خصوصاً بزرگ رہنما سید علی گیلانی کی جدوجہد سے کون انکار کر سکتا ہے۔ آخرتاریخ کے ان حقائق کو آئی ایس پی آرکا ایک پریس ریلیز کیسے یکسر ختم کرسکتاہے؟ قومی سلامتی اور پاکستان کی نظریاتی، جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت اور عوام کے دکھوں اور محرومیوں کے خاتمے کیلیے ہماری جدوجہد جاری ہے، اسلیے کہ یہ ہمارا دینی اور قومی فریضہ ہے۔ جماعت اسلامی اس امر پر اپنی تشویش کا اظہار کرتی ہے کہ اس وقت جب ملک سنگین مسائل سے دوچار ہے اور دہشتگردی کیخلاف جنگ کے نام پر امریکا نے افغانستان، عراق، پاکستان اور پوری دنیا کو اس آگ میں جھونک دیا ہے اس سے نکلنے کیلیے پاکستان کو پوری سیاسی اور عسکری قیادت کی تائیدمیسرآئی تھی تاکہ حکومت امن کے قیام کے سلسلے میں اپنی کوششیں جاری رکھتی۔ اسے سبوتاژ کرنے کیلیے امریکا نے تازہ ترین ڈرون حملوں کی صورت میں جو اقدام کیا ہے اس سے توجہ ہٹانے کیلیے غیر متعلق ایشوز پر ہنگامہ برپا کرنے اور قوم و ملک کی توجہ کو اصل مسئلے سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جماعت اسلامی اس امر کی دو ٹوک الفاظ میں وضاحت کرتی ہے کہ وہ ایک دستوری اور جمہوری جماعت ہے جو اپنے اورملکی دستور و آئین کی پابند ہے، اسلامی نظام زندگی کے قیام اور شریعت مطہرہ کے نفاذ کیلیے ہم جمہوری اور دستوری ذرائع سے تبدیلی ہی کو درست راستہ تسلیم کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے اور ان عناصر کے طریقہ کار میں زمین وآسمان کا فرق ہے جو شریعت کو بھی طاقت کے ذریعے نافذ کرنے کے مدّعی ہیں۔ جماعت اسلامی نے امریکا کی دہشتگردی کیخلاف جنگ اور افغانستان پر فوج کشی کی اول دن سے مذمت کی ہے اور افغانستان سے امریکی و ناٹو افواج کے مکمل انخلا کو علاقے میں امن کے قیام کیلیے ضروری قراردیا ہے۔ سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے جس طرح پاکستانی قوم اور ملک کو اس آگ میں جھونکا ہے ہم نے تسلسل سے اسکی مذمت کی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا موقف من و عن وہ ہے جو پارلیمنٹ کی 22 اگست 2008 اور 14مئی 2011 کی قرار دادوں میں بیان کیاگیاہے۔ جس کا اعادہ ایک بار پھر تمام جماعتوں نے 9ستمبر 2013 کو منعقد ہونیوالی کل جماعتی کانفرنس کے مشترکہ بیان میں کیاہے۔ جماعت اسلامی کی نگاہ میں فوج ایک قومی اور دستوری ادارہ ہے جسے دفاع پاکستان کیلیے عوام کے منتخب نمائندوں کی پالیسی اور قراردادوں کو لیکر چلنا چاہیے۔ آئین پاکستان کی رو سے صدر پاکستان اس کے سپریم کمانڈر اور وزارت دفاع اس کے جملہ امور کی ذمے دار ہے۔ دفاع پاکستان کے ضمن میں افواج پاکستان نے جو بھی خدمات انجام دی ہیں ان پر ہمیں اور پوری قوم کو فخر ہے۔ تاریخ کے تسلسل میں اسلام اور پاکستان کیلیے ہمارے جن افسروں اور جوانوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے انکی شہادت ہمارا تاریخی امتیاز اور قومی اثاثہ ہے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سابق حکمرانوں کی امریکا نواز پالیسیوں کی بھاری قیمت قوم ادا کررہی ہے اور ہمارے دلیر جوان بھی !! نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی یہ جنگ جس طرح ہمارے قومی، انسانی اور معاشی وسائل کو چاٹ چکی ہے اس میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری ملٹری اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ امریکا کے ساتھ کیے جانیوالے تمام اعلانیہ اور خفیہ، تحریری اور زبانی معاہدات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں ختم کرنے کا اعلان کرے۔ قوم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر خطیر غیرملکی امداد وصول کرنے، ناٹو افواج کو لاجسٹک اور اطلاعاتی رسائی فراہم کرنیکی پابندی کے بعد ہمارے حکمراں کیونکر ڈرون حملوں پر اقوام عالم اور امریکا سے احتجاج کرنے میں بھی حق بجانب ٹھہرتے ہیں۔ اصل مسئلہ سامراجی جنگ کا خاتمہ اور پاکستان سے اس کی گلوخلاصی ہے۔جماعت اسلامی نے دہشتگردی کی ہر شکل کی ہمیشہ سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جب اور جہاں بھی معصوم انسانوں، ریاستی و قومی اداروں، مذہبی اعتبار سے مقدس مقامات اور اجتماعات جن میں مساجد، امام بارگاہ، مدارس اور چرچ سبھی شامل ہیں کو نشانہ بنایا گیاہے۔ جماعت اسلامی نے اسے غیر اسلامی ،غیر قانونی اور غیر انسانی عمل قرار دیا ہے۔ ملک میں جاری دہشت گردی کی لپیٹ میں جماعت اسلامی کے 17سے زائد ارکان نے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ قومی اخبارات اور ذرائع ابلاغ اس بات کے گواہ ہیں کہ نہتے و پرامن شہریوں کے ساتھ ساتھ فوجی جوان اور افسروں کی شہادت پر افسوس اور مذمت کا اظہار کرنے میں ذرا بھی تردد سے کام نہ لیا۔ میجر جنرل ثنا اللہ نیازی سمیت متعدد فوجی شہدا کے گھروں پر جماعت اسلامی کی قیادت نے بالمشافہ جا کر افسوس اور احترام کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ ہمیں اس بات کا اظہار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ملک کے دفاع اور اس کے اسٹرٹیجک مفادات کے تحفظ میں جماعت اسلامی کے کارکنان کی مادی خدمات کسی بھی دوسرے قومی ادارے سے کم نہیں۔ قومی افتاد، آسمانی آفت اور بیرونی جارحیت پر جماعت اسلامی کے کارکنان نے اسے قومی فریضہ سمجھتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگائی جو تاریخ کا حصہ ہے اس پر ہم فخر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بھی ہیں۔ حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملے میں جس طرح نشانہ بنایا گیا اس کی مذمت ملک کے ہر طبقے نے بلا تخصیص کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حملہ قومی اتفاق رائے پر حملہ ہے جسکے نتیجے میں امن کی کوششوں کو قتل کیا گیا ہے۔ قوم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ 10 سال سے جاری اس بے چہرہ اور درآمدشدہ جنگ میں جب قومی اتفاق رائے کرلیا گیا تو ایک ترتیب کے ساتھ 3،4 واقعات کو بنیاد بنا کر اس اجماع کو تہہ و بالا کردیا گیا اور یہ ماضی میںہر اس موقع پر ہواہے جب بھی ریاست اور ادارے امن کیلیے کچھ نہ کچھ پیش رفت کرتے نظر آتے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 2 انٹرویوز اور کہے جانے والے چند جملوں کی بنیاد پر جماعت اسلامی کے دیرینہ موقف، تاریخی کردار، سیاسی جدوجہد کو نظر انداز کرنا کسی بھی طرح ایک باوقار قومی ادارے کے شایان شان نہیں ہے۔ ہم ایسی کسی بحث میں فریق بننے کو بھی قومی مفاد سے متصادم تصور کرتے ہیں جو قوم کو بانٹنے اور توجہ کو امن کی کوششوں سے ہٹا کر کسی اور سمت لے جائے جس کا خدشہ قوم کو گذشتہ کئی ہفتوں سے ہے۔ (مذاکرات کا یہ سفر منزل کی طرف ایک قدم اٹھائے بغیر ختم نہیں کردینا چاہیے ۔ ملک و ملت کیلیے مزید نقصانات کا باعث ہوگا) اس وقت ملک کے مستقبل کا انحصار اس تباہ کن جنگ کے خاتمے پر ہے جس نے پوری قوم کو گزشتہ 10 سال سے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے نہ کہ فروعی ضمنی مباحث کو طول دینے میں، جماعت اسلامی پوری قوم اوربالخصوص سیاسی وعسکری قیادت سے اپیل کرتی ہے کہ وہ توجہ کو اصل مسئلے پر مرکوز کرے۔ امریکا نے افغانستان میں 12 سالہ ناکامی کے بعد بہت ہوشیاری اور چالاکی سے محاذ جنگ کو پاکستان منتقل کردیا ہے۔ پوری دنیا میں سفارتی ناکامی اور عسکری شکست کی جھنجھلاہٹ اس نے پاکستانی ریاست پر اتاری ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ، تھنک ٹینکس اور سابق اعلیٰ امریکی سفارتکار افواج پاکستان اور افغانستان میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے جو خیالات رکھتے ہیں وہ اب بالکل پبلک ہیں۔ اس کے بعد کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ پاکستانی قوم اور افواج پاکستان کو تقسیم کرکے ایک تیر سے 2 شکار کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے جماعت اسلامی کا موقف بالکل واضح ہے۔ غیرملکی افواج کو وہاں سے اپنے مفادات سمیت نکلنا چاہیے۔ پاکستان اور ہمسایہ ملک سمیت اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کو افغان عوام کی مرضی کے مطابق حقیقی نمائندہ حکومت بنانے میں ممکن حد تک تعاون کرناچاہیے جبکہ پاکستان میں مذہبی و عوامی مقامات پر معصوم عوام اور قومی فرائض کی بجا آوری پر مامور ملازمین پر حملوں کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان سے جنگ کو پہلے قبائلی علاقوں اور پھر پورے ملک میں گھسیٹ لانے کی ذمے داری امریکا کے شاطرانہ ذہن کے ساتھ ساتھ ہمارے پالیسی سازوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی کو طالبان کا’’سیاسی ونگ‘‘ کہنے والے ذرائع ابلاغ اور اہل دانش کو یاد دلانا مناسب ہو گا کہ پیپلز پارٹی کی عوامی حکومت میں وزیرداخلہ نے انھی طالبان کو ’’اپنا بچہ ‘‘ قرار دیا بعد ازاں ہمارے ہی اداروں نے ’’اچھے اور برے طالبان‘‘ کی اصطلاح وضع کی، افغانستان میں مجاہدین یا طالبان کی حکومت کو سب سے پہلے تسلیم کرنے میں خود پاکستانی حکومت ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ پیش پیش تھی۔ جماعت اسلامی اصولی بنیادوں پر سمجھتی ہے کہ افغانستان میں قیام امن اور پاکستان میں مذاکرات کے ذریعے امن کی کاوشوں کو مستحکم کیے بغیر ہم دہشتگردی کیخلاف اس نام نہاد جنگ سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی سے لیکر جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف سے لیکر جمعیت علمائے اسلام نے بھی اپنی علیحدہ علیحدہ قرار دادوں اور آل پارٹیز کانفرنس میں امن کے قیام کیلیے مذاکرات کے راستے کو بہترین دستیاب حل قرار دیا ہے اور یہی جماعت اسلامی کا موقف ہے مگر بیرونی دباؤ کی ذرا سی تپش پر ہماری حکومت اور ادارے اس قومی اتفاق رائے سے منحرف ہونے میں دیر نہیں لگاتے ۔ یہ جنگ اگر ہماری ہے تو اسے ہمیں زمینی حقائق اور اپنے قومی فیصلوں کے تحت لڑنا ہوگا۔ کوئی بھی جنگ اپنی زمین پر دوسروں کے طے کردہ رولز آف گیم کے تحت نہیں لڑی جاسکتی۔ ہم آپ کی وساطت سے پاکستانی قوم ،علمائے کرام اور ذرائع ابلاغ کو بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ترجیحات اور توجہ کو اصل مسئلے پر مرکوز رکھاجائے۔ اس وقت پاکستان کے جملہ سیاسی ،معاشی ،داخلہ اور خارجہ مسائل کی کنجی پاکستان میں امن کے قیام سے وابستہ ہے۔ امن کے قیام کیلیے قومی سطح پرجو اتفاق رائے ہواہے اسے کسی بیرونی دباؤ یا اندرونی خلفشار کی بھینٹ نہ چڑھنے دیا جائے۔ جماعت اسلامی اس سلسلے میں حکومت، فوج سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون کرنے کو اپنا قومی فریضہ سمجھتی ہے۔ آپ کی توجہ کا بے حد شکریہ والسلام خاکسار (لیاقت بلوچ ) سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان دریں اثنا مرکزی تربیت گاہ میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہاکہ پرویز رشید ’’چٹھی سجناں دی‘‘کے انتظار میں بیٹھے ہیں، آج ان کا انتظار ختم ہوجائے گا، ہم نے وزیر اعظم کو خط بھجوا دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا ریکارڈ ہے کہ انھوں نے کبھی اپنے دور میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے،عوام میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بارے میںشکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں ۔لیاقت بلوچ نے کہا کہ شکر ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو 14 سال بعد شہدا کا خیال آیا اور انھوں نے شہدا کی قبروں پر جاکر پھول چڑھائے ،انھوں نے وزیراعظم کے اس اقدام کی تحسین کرتے ہوئے کہا کہ زندہ قومیں اپنے شہداکی قربانیوں کو فراموش نہیں کرتیں۔

تبصرے بند ہیں.