پی ٹی آئی عوام کے سامنے سخت، حکومت سے سیاسی مذاکرات کی خواہشمند

اسلام آباد  – سیاسی مخالفین کے خلاف اپنے جارحانہ عوامی موقف کے برعکس، پی ٹی آئی کی قیادت مذاکرات کے ذریعے آئندہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان، انتخابی اصلاحات، نگراں حکومت اور معیشت جیسے مسائل کے حل کیلئے حکومت کے ساتھ بات چیت کی خواہشمند ہے۔پی ٹی آئی کے کچھ سینئر رہنماؤں کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وزیر اعظم شہباز شریف براہ راست عمران خان کو بات چیت کی پیشکش کرتے ہیں تو پارٹی اب بھی لانگ مارچ یا اسلام آباد کے محاصرے کی طرف جانے سے گریز کرے گی۔اگرچہ پی ٹی آئی پہلے الیکشن کی تاریخ حاصل کرنے کے بعد ہی حکمران اتحاد کے ساتھ مذاکرات کرنے کی اپنی پیشگی شرط کے معاملے میں سخت نظر آتی ہے لیکن اصل میں پارٹی کافی لچکدار ہے۔پی ٹی آئی کے ایک رہنماء کا کہنا ہے کہ ہم جلد الیکشن نہیں چاہتے لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر ہم مذاکرات کی طرف گئے تو انتخابات ہماری خواہش کے مطابق نہیں ہوں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ آئندہ سال مارچ سے جون کے درمیان تک کیا جا سکتا ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیر اعظم شہباز شریف کھل کر عمران خان کو الیکشن سے متعلق معاملات، معیشت، سیلاب، اصلاحات وغیرہ پر بات کرنے کیلئے مذاکرات کی پیشکش کریں تو پی ٹی آئی لانگ مارچ یا اسلام آباد کے گھیرائو سے گریز کر سکتی ہے۔پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ساتھ اس نمائندے کی بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکومت سے قبل از وقت انتخابات کی تاریخ کے اعلان کی توقع نہیں رکھتے۔پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ بات چیت کی منتظر ہے لیکن اب اسٹیبلشمنٹ دونوں کے درمیان سہولت کاری کیلئے پرجوش ہے اور نہ ہی حکومت عمران خان سے بات کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اس وقت صرف صدر عارف علوی اسٹیک ہولڈرز کو میز پر بٹھانے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں لیکن ان کی تمام پس پردہ کوششیں ناکام رہی ہیں۔ اسی وجہ سے عمران خان اب اسلام آباد مارچ کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔پی ٹی آئی کی جانب سے ایسے کسی بھی احتجاج کے وقت کے حوالے سے اور ساتھ ہی اس بارے میں بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ عمران خان الیکشن کیلئے مطلوبہ تاریخ کا اعلان حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے یا نہیں۔ تاہم یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام بڑھ جائے گا جس سے ملکی معیشت کو مزید نقصان ہوگا جو پہلے ہی بحرانی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔ اس مرحلے پر دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام دونوں کیلئے حوصلہ افزا ثابت ہو سکتے ہیں۔آئندہ سال انتخابات کا سال ہوگا۔ نون لیگ کی زیرقیادت حکمران اتحاد کا اصرار ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کرے جبکہ عمران خان جلد از جلد انتخابات چاہتے ہیں۔ 2022 میں عام انتخابات ممکن نہیں اور اگر موجودہ حکومت کو زبردستی ایک ماہ کے اندر ہی اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا جائے تو اس صورت میں بھی انتخابات آئندہ سال جنوری سے پہلے ممکن نہیں۔پی ٹی آئی جانتی ہے کہ سیاسی سطح پر مذاکرات کئی ہفتوں تک جاری رہ سکتے ہیں۔ مذاکرات کے نتیجے میں انتخابی اصلاحات ہوں گی، جس کا مطلب ہے پارلیمنٹ قانون سازی کرے گی۔ الیکشن کمیشن میں کسی طرح کی تبدیلی، نگراں وزیراعظم کے تقرر کیلئے پراسیس اور اس کے بعد معیشت پر مذاکرات وغیرہ میں چند ماہ کا وقت لگے گا۔پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں واپس آنا ہوگا تاکہ اس پورے عمل میں کامیابی مل سکے بصورت دیگر عمران خان اور ان کی جماعت کیلئے مزید مسائل پیدا ہوں گے اور مزید کنفیوژن کا سامنا کرنا ہوگا۔اگر انتخابات آئندہ سال مارچ سے جون تک کے درمیان ہو جائیں تو یہ پی ٹی آئی کیلئے قابل قبول ہوگا۔ماضی میں یعنی عمران خان کے اقتدار سے نکلنے کے بعد، پی ٹی آئی کے پاس حکمران اتحاد کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ مذاکرات کے امکانات تھے لیکن یہ مواقع پی ٹی آئی قیادت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ضایع ہوگئے۔

تبصرے بند ہیں.