سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی ایک سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کرا سکی۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔سماعت کے آغاز پر الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے عدالت کو بتایا کہ میں 30 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں گا، میں 4 قانونی نکات عدالت کے سامنے رکھوں گا، پارٹی سرٹیفکیٹس جمع کرانے کے وقت پی ٹی آئی کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں تھا، الیکشن میں سرٹیفکیٹ گوہر علی خان کے دستخط سے جمع کرائے گئے، پی ٹی آئی نے اس وقت انٹرا پارٹی الیکشن قانون کے مطابق نہیں کرائے تھے، فارم 66 جمع کراتے وقت پی ٹی آئی کا کوئی ڈھانچہ نہیں تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر سے استفسار کیا کہ بتائیں غلطی کہاں اور کس نے کی؟وکیل نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزاد امیدوار ہے، پی ٹی آئی نے فارم 66 بائیس دسمبر اور پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ 13 جنوری کو جاری کئے، پی ٹی آئی کو پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ تو کاغذات نامزدگی کے ساتھ لگانا چاہیے تھے۔اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بتا دیں پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی میں لکھا ہے کہ سرٹیفکیٹ منسلک ہیں، وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 23 دسمبر کو فیصلہ کیا جو پہلے آیا، اس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا۔جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے کہ سرٹیفکیٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیئرمین تحریک انصاف کا انتخاب نہیں ہوا تھا؟وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ سرٹیفکیٹ جمع کراتے وقت جب چیئرمین تحریک انصاف منتخب نہیں ہوئے تو کاغذات نامزدگی درست نہیں، کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، حامد رضا کو بطور چیئرمین سنی اتحاد کونسل اپنے آپ کو ٹکٹ جاری کرنا چاہیے تھا۔الیکشن کمیشن کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، حامد رضا نے 22 دسمبر کو کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار کہا، حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں بریکٹ میں لکھا کہ اتحاد تحریک انصاف سے ہے، حامد رضا نے پارٹی سے وابستگی 13 جنوری کو جمع کرائی۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یعنی الیکشن کمیشن کی تاریخ سے قبل پارٹی سے ڈیکلریشن دینی چاہیے، نشان بعد کی بات ہے، وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ حامد رضا کا ہر دستاویز ان کے پچھلے دستاویز سے مختلف ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا حامد رضا کو سنی اتحاد کونسل کا سرٹیفکیٹ دینا چاہیے تھا یا آزادامیدوار کا؟ جس پر وکیل نے کہا کہ حامد رضا کو سنی اتحاد کونسل کا سرٹیفکیٹ جمع کرانا چاہیے تھا۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ڈیکلریشن میں تو حامد رضا نے خود کو تحریک انصاف کا ظاہر کیا نہ کہ آزاد امیدوار۔وکیل نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 22 دسمبر کو آیا، 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا اور 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا، 8 فروری کو تحریک انصاف نے انٹراپارٹی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بتایا، اگر 7 فروری کو بھی تحریک انصاف انٹراپارٹی انتخابات کا بتا دیتے تو کچھ ہو سکتا تھا۔اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ اگر ایسا تحریک انصاف کرتی تو الیکشن کمیشن کا اپنا شیڈول متاثر ہو جاتا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ تو کئی سال قبل سے آ رہا تھا، تحریک انصاف بار بار انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے وقت مانگ رہی تھی، سپریم کورٹ پر مت ڈالیں، الیکشن کمیشن پہلے دیکھ سکتا تھا، فٹبال کی طرح ایکسٹرا ٹائم کو دیکھ رہے، اصل گیم 90 منٹ کی ہوتی ہے۔اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال تھا انتخابات جائز ہوئے یا نہیں، 22 دسمبر کو جب نشان لے لیا تو مطلب انتخابات کیلئے پارٹی ہے۔
تبصرے بند ہیں.