ولیس اور دیگر اداروں کو جتنی رسائی ہے اتنی عدالتی حکام کو نہیں ہوتی، چیف جسٹس

اسلام آ باد: سپریم کورٹ میں نیو اسلام آباد ائیرپورٹ کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت خود اپنا کام کیوں نہیں کرتی، ہمیں بار بار کہنے سے شرمندگی ہوتی ہے، پولیس اور دیگر اداروں کو جتنی رسائی ہے اتنی عدالتی حکام کو نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اسلام آباد میں نئے ائیرپورٹ کی تعمیر کیس کی سماعت کی ، دوران سماعت چیف جسٹس نے سول ایوی ایشن کے وکیل سے کہا کہ اس کیس میں بہت بااثر لوگ شامل ہیں، آپ ان لوگوں کو چھو بھی نہیں سکیں گے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اب کوئی اس کی ذمے داری نہیں لیتا، سول ایوی ایشن تسلیم کررہا ہے جب کام شروع کیا تو منصوبے کا ڈیزائن بھی موجود نہیں تھا، انہوں نے کہا کہ جب ڈیزائن ہی موجود نہیں تو منصوبہ کیسے شروع کردیا گیا، سول ایوی ایشن کےبیان سے لگتا ہےمنصوبہ بغیر سوچےشروع کیا گیا۔ اس موقع پر سول ایوی ایشن کے وکیل افنان کنڈی نے عدالت کو بتایا کہ اب تک 32 ارب کی ادائیگیاں کی جاچکیں، 30جون 2015کو منصوبہ مکمل ہو جائے گا اور جو کنٹریکٹر ڈیفالٹ کرگئے ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ پہلے آپ لوگ کہاں تھے، یہ سب کچھ اس وقت کر رہے ہیں جب عدالت نے معاملہ اٹھایا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ جہاں کہیں غلط کام ہوئےاس کے پیچھے سول ایوی ایشن ہی نظر آئی، جب حکومت نے خرابی تسلیم کی ہے تو اسے درست بھی کرے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شاہد نواز کی رپورٹ کی بنیاد پر معاملہ ایف آئی اے کو بھیجا جائے گا، عدالت چاہے تو کمیشن بنا دے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت خود اپنا کام کیوں نہیں کرتی، ہمیں بار بار کہنے سے شرمندگی ہوتی ہے، پولیس اور دیگر اداروں کو جتنی رسائی ہے اتنی عدالتی حکام کو نہیں ہوتی، 83 ارب کا بوجھ عوام پر نہ ڈالا جائے، کیس کی سماعت 10 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔

تبصرے بند ہیں.