وزیراعظم عمران خان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف )اور وزارت خزانہ کے درمیان اسٹاف لیول معاہدے کا مسودہ مسترد کر دیا۔آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کے حکام کے درمیان مذاکرات جمعے کے روز بھی جاری رہے اور یہ امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ حتمی ڈیل ہوجائے گی۔جمعہ کے روز وزیراعظم عمران خان سے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ اور دیگر اقتصادی ماہرین نے بھی ملاقات کی۔ملاقات میں مشیر خزانہ اور دیگر حکام نے وزیراعظم کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے حتمی معاہدے پر بریفنگ دی اور بیل آؤٹ پیکیج سے متعلق آگاہ کیا۔ملاقات میں وزیراعظم کو آئی ایم ایف کی شرائط سے متعلق بھی آگاہ کیا گیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کے درمیان اسٹاف لیول معاہدے کا مسودہ مستردکردیا ہے۔ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف اسٹاف لیول معاہدہ مکمل کرچکے تھے لیکن جب یہ مسودہ منظوری کیلئے دکھایا گیا تو عمران خان نے اسے مسترد کردیا۔ وزیراعظم افراط زر کے معاملے پر آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی چاہتے ہیں۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے مشیر خزانہ کو ٹیکس وصولی کا ہدف کم کرنے کیلئے بھی آئی ایم ایف کو راضی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ ٹیکس استثنیٰ سے متعلق بھی آئی ایم ایف سے مزید رعایت لی جائے۔ذرائع کا بتانا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام سے بجٹ میں 700 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ذرائع کا بتانا ہے کہ آئی ایم ایف ٹیکسز سے متعلق شرائط نرم کرنے پر تیار نہیں اور عالمی مالیاتی ادارہ ایف بی آر کا ٹارگٹ 5200 ارب روپے سے زائد مقرر کرنا چاہتا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے بجلی اور گیس مزید مہنگی کرنے کی آئی ایم ایف کی شرائط مان لی ہیں، بجلی،گیس کی مد میں 340 ارب روپے 3 سال میں صارفین کی جیبوں سے نکالے جائیں گے۔یاد رہے کہ پاکستان اس سے قبل 21 پروگراموں کے ذریعے 14 ارب 40 کروڑ ڈالر کے قرضوں پر مشتمل پروگرام لے چکا ہے۔گزشتہ دور حکومت میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تین سال کے لیے آئی ایم ایف پروگرام لیا تھا
تبصرے بند ہیں.