ناراض بلوچ مذاکرات سے نہ مانے تو دوسری زبان میں بات کرینگے، وزیر اعلیٰ بلوچستان

وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہاہے کہ افغانستان میں امریکی مداخلت کے اثرات بلوچستان تک پھیلے ہوئے ہیں، عید کے بعدکل جماعتی کانفرنس کوئٹہ میں بلائی جائے گی۔ میری پہلی ترجیح ناراض بلوچوں سے مذاکرات ہیں لیکن وہ نہ مانے توپھردوسری زبان میں بات کرینگے ،وفاقی ایجنسیاںلاپتہ افرادکوقانون کے کٹہرے میںلائیں ان کی وجہ سے صوبائی حکومت کے لیے مسائل پیدا ہورہے ہیں تاہم میرے دورمیں ایک بھی شہری لاپتہ نہیںہوا،جے یوآئی کوصوبائی حکومت میں شامل نہیںکیاجا رہا۔ آواران میں10سال سے کوئی ایس ایچ او نہیں گیا، اب ڈی پی اواورسیکریٹریزمستقل وہاں بیٹھے ہیں،گوادرسے متعلق میں اپنے عوام کے بہترمفاد میں ہی فیصلہ کروںگاجب تک صوبے میںامن قائم نہیںہوتااس وقت تک صوبے میںترقی ممکن نہیں،متاثرین زلزلہ کی بحالی کے لیے صوبائی حکومت تنہاکچھ نہیں کرسکتی ہم نے وفاق کو درخواست کی ہے کہ اقوام متحدہ کے زیرانتظام آنے والی این جی اوزکوزلزلہ متاثرین تک رسائی دی جائے تاکہ ان کی جلدبحالی ہوسکے۔ناراض بلوچوں کے حوالے سے انھوںنے کہاکہ ان سے رابطہ کیاجا رہاہے کیوںکہ بلوچ تاریخ کے مطابق بلوچ امن پسنداورصلح جوہیں لیکن ان کیلیے اس قسم کے حالات پیداکرکے انھیں پہاڑوں پرچڑھادیاگیاجب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا اس وقت تک بلوچستان کے حالات میں بہتری نہیں ہوسکتی۔ وزیراعلیٰ کاکہناتھاکہ لاپتہ افرادکامعاملہ بہت گھمبیرصورتحال اختیارکرچکاہے وفاقی ایجنسیاںانھیں قانون کے کٹہرے میں لاکر مقدمات چلائیں کیوں کہ ان کی وجہ سے ہمارے لیے مسائل پیداہورہے ہیں، اپنے دورحکومت کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ پانچ ماہ میںکرپشن کاایک بھی الزام نہیں لگا،صوبے کے وسائل عوام کی فلاح اورترقی پرخرچ کررہے ہیں۔این این آئی کے مطابق حکومت بلوچستان نے وفاقی حکومت سے باضابطہ طورپردرخواست کی ہے کہ وہ عالمی اداروں کوصوبے میں زلزلہ زدگان کی مددکیلیے کام کرنے کی اجازت دے۔وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک نے نجی ٹی وی کو بتایاکہ صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں وفاق کوایک خط تحریرکیاجس میںکہاگیاکہ حکومت آواران متاثرکی مددکیلیے انٹرنیشنل ریلیف کے اداروں کو یہاںآنے کی اجازت دے۔

تبصرے بند ہیں.