سپریم کورٹ آف پاکستان نے موبائل فون کارڈز پر معطل تمام ٹیکس بحال کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ عدالت عالیہ ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیس کا مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت عالیہ ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ پبلک ریوینیو اور ٹیکس پر معاملات پر مداخلت کیے بغیر مقدمے کو نمٹاتے ہیں۔خیال رہے کہ گزشتہ سال 2018ء میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومت اور موبائل فون کمپنیوں کو عوام سے ٹیکس وصول کرنے سے روک دیا تھا۔ آج سپریم کورٹ نے از خود نوٹس نمٹاتے ہوئے موبائل فون کارڈز پر تمام ٹیکسز بحال کر دیے اور حکم امتناع ختم کر دیا۔آج مورخہ 24 اپریل 2019ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تو اٹارنی جنرل نے ایک بار پھر عدالتی دائرہ اختیار پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ٹیکس کے نفاذ پر ازخود نوٹس کی مثال نہیں ملتی۔ ٹیکسز پر حکم امتناع کے باعث حکومت اپنی آمدن کے بڑے حصے سے محروم ہے، جسے ٹیکس استثنا چاہیے متعلقہ کمشنر سے رجوع کرے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ موبائل فون کارڈ ٹیکس کا نوٹس پانچ ججز کے حکم پر لیا گیا۔ ان لاکھوں لوگوں سے ٹیکس لیا جا رہا تھا جن پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ ٹی وی لائسنس کا ٹیکس بھی ہر شہری سے لیا جاتا ہے۔ ہر ٹی وی دیکھنے پر انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا لیکن وہ ٹیکس دیتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو ٹیکس کے اہل نہیں، ان سے پیسہ لینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔چیف جسٹس نے کیس کا محفوظ فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ سپریم کورٹ ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کریگی، عدالت عدالت یہ از خود نوٹس مقدمہ نمٹاتی ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ سال 11 جون 2018ء کو سپریم کورٹ نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی معطل کر دی تھی۔ اس موقع پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ لوگوں سے لوٹ مار کی جا رہی ہے، مقررہ حد سے زیادہ استعمال پر ٹیکس وصول کریں۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین ایف بی آر عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ 13 کروڑ افراد موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ موبائل کال پر چارجز کاٹنا کمپنیوں کا ذاتی عمل ہے۔ ملک بھر میں 5 فیصد افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جو ٹیکس نیٹ میں نہیں، ان سے ٹیکس کیسے لیا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ریڑھی والا فون استعمال کرتا ہے، وہ ٹیکس نیٹ میں کیسے آ گیا ؟ 13 کروڑ افراد پر موبائل ٹیکس کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟ ٹیکس دہندہ اور نادہندہ کے درمیان فرق نہ کرنا امتیازی سلوک ہے۔ آئین کے تحت امتیازی پالیسی کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے موبائل فون کمپنیوں اور ایف بی آر کی طرف سے عائد تمام ٹیکس معطل کرتے ہوئے 2 روز میں احکامات پر عمل درآمد کرنے کی مہلت دے دی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے 100روپے کے لوڈ پر 63 روپے آنا غیر قانونی ہے، موبائل فونز کارڈرز پر ٹیکس وصولی کیلئے جامع پالیسی بنائی جائے۔موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی کے معاملے پر ایف بی آر نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ ٹیکس کے باوجود پاکستان میں موبائل فون کا استعمال کئی ممالک سے سستا ہے۔ پاکستان میں ٹیکسز کی شرح بنگلا دیش، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا سے کم ہے۔ دیگر ممالک میں صارفین سے کئی اقسام کے ٹیکس لیے جاتے ہیں۔موبائل کارڈ پر ٹیکس بحال ہونے سے حکومت کو ماہانہ سات اعشاریہ پانچ ارب روپے کی آمدن متوقع ہے۔ پری پیڈ کالنگ کارڈ سے ہونے والی ٹیکس آمدن جو جون 2018ء سے ہولڈ پر چلی گئی تھی، اب بحال ہو چکی ہے۔ماہرین کے مطابق اس طرح مئی اور جون میں موبائل کارڈ پر عائد ساڑھے 19 فیصد سیلز ٹیکس اور ساڑھے 12 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس سے مجموعی طور پر سرکار کو 15 ارب روپے ملنے کی توقع ہے۔ایک اندازے کے مطابق پری پیڈ کارڈز پر ٹیکس سے سالانہ 90 ارب روپے کی آمدن ہوا کرتی تھی۔
تبصرے بند ہیں.