عام آدمی کیلیے بجٹ میں کوئی خوشخبری نہیں، مہنگائی بڑھے گی
لاہور: وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اپنا پہلا بجٹ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔ بجٹ تقریر اور اس میں بیان کردہ اعلانات بظاہرمسلم لیگ ن کے منشور سے مطابقت رکھتے ہیں نہ ہی عوامی توقعات سے کوئی لگا کھاتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ تقریر انتہائی عجلت میں تیار کی گئی جس پر غور کرنے کے لیے مسلم لیگی قیادت کو وقت میسر نہیں آسکا اور جو سراسر بیوروکریسی کے ذہن رسا کی تخلیق اور سابق حکومت کے مالیاتی مینیجرز کی سوچ اور فکر کی آئینہ دار ہے۔ حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کو عوام نے جس طرح اپنے ووٹ کی طاقت سے پذیرائی بخشی اور ن لیگ کی قیادت سے توقعات وابستہ کر رکھی تھیں موجودہ بجٹ نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔عام آدمی کے لیے اس بجٹ میں کوئی خوشخبری نہیں، الٹا سیلز ٹیکس میں اضافہ کا عندیہ دے کر اسے مہنگائی کے مہیب غار میں دھکیل دیاگیا ہے۔ محض خوشنما الفاظ کا سہارا لے کر تقریر کو قابل قبول بنانے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ حقیقت میں یہ بجٹ عوام دوست ہے اور نہ ہی غریب پرورکیونکہ کم وبیش ڈیڑھ گھنٹے پر محیط بجٹ تقریر میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ ساٹھ دنوں میں سرکلر ڈیٹ (بقول وزیر اعلیٰ پنجاب شیطانی چکر )کو ختم کرنے کا اعلان بھی اگرچہ اچھا ہے لیکن غیر ملکی قرضوں کے حصول اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیے بغیر کیا ایسا ممکن ہوسکے گا؟ بجٹ کسی بھی حکومت کی معاشی پالیسی کا عکاس ہوتا اور نئے مالی سال کے لیے اس کے مالیاتی پروگراموں ، ترقیاتی وفلاحی منصوبوں اور ترجیحات کا پرتو ہوتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئے بجٹ میں ملک کو درپیش موجودہ معاشی چیلنجز سے عہدہ براء ہونے، خصوصاً توانائی کے بحران پر قابو پانے ، بجٹ خسارہ کو کم کرنے، کرپشن کے خاتمے ، لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال کو کنٹرول کرنے اور عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے کوئی قابل عمل روڈ میپ دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے نیا بجٹ اس بارے میں کوئی رہنمائی مہیا کرنے سے قاصر دکھائی دیتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.