سی این جی لائسنسوں میں بے قاعدگیوں کی تصدیق، رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

اسلام آباد: ایف آئی اے نے سی این جی اسٹیشن کے لیے لائسنس کے اجرا میں شدید بے قاعدگیوں کی تصدیق کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ اس بارے میں کرپشن کی تمام کڑیاں سابق چیئرمین اوگرا تو قیرصادق اور میرکمال مری تک جاتی ہیں ۔ ایف آئی اے نے انکوائری رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ فرنٹ مین شہزاد بھٹی کے ذریعے لوگوں سے پیسے لیے جاتے تھے ۔ عدالت نے تفتیش مکمل کرنے کیلیے مزید مہلت دے دی جبکہ چیئرمین اوگرا سے سی این جی اسٹیشنوںکا معائنہ کرنے والے انسپکٹروںکی تعداد اور ایک سال میں کیے گئے معائنوںکی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے چیئرمین کو ہدایت کی ہے کہ وہ ڈائریکٹر لیگل ایف آئی اے کے ساتھ گوجرانوالہ کے اس علاقے کا دورہ کریں جہاں3کلومیٹرکے اندر17سی این جی اسٹیشن لگائے گئے ہیںاور رپورٹ دیںکہ یہ غیرقانونی کام کیوں نہیں روکاگیا جبکہ جوہرٹائون لاہورمیں اسکول سے متصل ڈھائی مرلے میں چلنے والے اسٹیشن کی عدم بندش کی وضاحت بھی کی جائے۔ایف آئی اے کے ڈائریکٹر لیگل اعظم خان نے عدالت کو بتایا کہ سات اسٹیشنوں کے مالک بوریوالاکے رہاشی عامرحسین نے انکوائری میں بتایا کہ شہزاد بھٹی کا ان اسٹیشنوں میں بڑا شیئرہے ،وہ لائسنس دلوانے کیلیے رقم وصول کرتا تھا اور ایک ہفتے میں لائسنس دلوا دیتا تھا وہ اوگرا میں رقم کمال مری اور توقیرصادق کو دیتا تھا، اس معاملے میں مزید انکوائری جاری ہے ۔عدالت نے انکوائری کی تعریف کی اورکہاکہ اگر نیب آزاد ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔عدالت کے استفسار پرچیئرمین اوگرا نے بتایا کہ 2006سے2011تک 400لائسنس جاری کیے گئے۔ جسٹس اعجازاحمد چوہدری نے کہاکہ اس کے بعد بھی200 لائسنس دیے گئے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.