کراچی(بیورو رپورٹ) آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) نے وزارت اطلاعات کی جانب سے 3 اپریل کو جاری ہونے والے اس نوٹیفکیشن پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، جس میں سرکاری اشتہارات کے اجرا اور اشتہارات کے بلز کی ادائیگی کے نئے طریقہ کار کو نوٹیفائی کیا گیا۔اے پی این ایس کے صدر حمید ہارون اور سیکریٹری جنرل سرمد علی نے کہا کہ ڈرافٹ سینٹرلائزڈ ایڈورٹائزنگ پالیسی میں میکانزم کی تجویز دی گئی تھی، جسے وزارت کی یقین دہانی کے مطابق تمام اسٹیک ہولڈرز اے پی این ایس، پی بی اے (پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن) اور پی اے اے (پاکستان ایڈورٹائزنگ ایسوسی ایشن) کے ساتھ مشاورت کے ذریعے ابھی تک حتمی شکل نہیں دی گئی۔بیان کے مطابق اے پی این ایس، پی بی اے اور پی اے اے پہلے ہی اپنے پوزیشن پیپرز جمع کرواچکے ہیں لیکن اب تک مذکورہ وزارت کی جانب کوئی مشاورتی اجلاس نہیں بلایا گیا۔اے پی این ایس کے مطابق وزارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر نوٹیفکیشن جاری کرنا اس بات کی طرف مضبوط اشارہ ہے وزارت کے لیے مشاورتی عمل کوئی معنیٰ نہیں رکھتا تھا کیونکہ وہ پہلے ہی بنیادی آزادی صحافت کو نقصان پہنچانے کے لیے مجوزہ پالیسی پر عمل درآمد کا فیصلہ کرچکی تھی۔آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے عہدیداروں نے بتایا کہ مجوزہ طریقہ کار عمل طور پر قابل عمل نہیں ہے کیونکہ اس وقت تمام سرکاری اشتہارات، ڈسپلے سمیت کلاسیفائڈ اشتہاری ایجنسیوں کے ذریعے جاتے اور وہ اسپانسنرنگ ڈیپارٹمنٹس سے اشتہارات کی ادائیگیوں کی وصولی کرتیں اور اخبارات کے بقایات جات ادا کرتیں۔انہوں نے کہا کہ اگر مجوزہ طریقہ کار وزارت کی جانب جانب سے نافذ کیا جاتا ہے تو اشتہاری جاری کرنے والی ایجنسیاں ادائیگیوں سے بری الذمہ ہوجائیں گی اور اخبارات کو اپنے بلوں کی وصولیوں کے لیے ادھر سے ادھر جانا پڑے گا۔بیان کے مطابق نوٹیفکیشن میں سرکاری اشتہاروں کے لیے نیا طریقہ کار تجویز کرتے ہوئے ایجنسی کا 15 فیصد فکسڈ کمیشن طے کیا گیا ہے جو مقابلہ کمیشن پاکستان کی ان واضح ہدایات کی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق اخبارات دوطرفہ متفقہ نرخوں کے مطابق ایجنسیز سے تجارتی رعایت شیئر کرتے ہیں۔لہٰذا اے پی این ایس کی جانب سے وزارت پر زور دیا گیا کہ وہ اس نوٹیفکیشن کو واپس لے اور نئی مجوزہ پالیسی پر تب تک عمل درآمد روکے جب تک یہ اسٹیٹ ہولڈرز کی مشاورت سے حتمی نہیں ہوجاتی۔
تبصرے بند ہیں.