اسلام آباد (مانیٹر نگ ڈیسک) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کجموں وکشمیر اور فلسطین کے تنازعات اقوام متحدہ کے دیرینہ اور واضح ترین ناکامیوں کے مظاہر میں سے ہیں،مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام استصواب رائے کے اپنے حق کے حصول کیلئے آج بھی منتظر ہیں، جس کا اقوام متحدہ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا،اقوام متحدہ پر آج گپ شپ کی جگہ ہونے کا طنز ہورہا ہے، اس کی قراردادوں اور فیصلوں کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ منگل کو وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی 75ویں سالگرہ پر بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کی طرف سے آپ کے لئے نیک تمناوں کا پیغام پیش کرتا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ میں اس معزز ایوان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اقوام متحدہ کی پچھترویں سالگرہ کے اس اہم موقع پر مجھے اپنے خیالات, آپ کے سامنے پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ انہوںنے کہاکہ اقوام متحدہ کی ڈائمنڈ جوبلی منانا یقینی طورپر ایک تاریخی موقع ہے،یہ اس خوش کن اتحاد کی خوشیاں منانے کا موقع ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ ہنگامہ خیز واقعات، اوردلچسپ امکانات کا سفر ہے،آج کا دن اقوام متحدہ کے قیام کے بنیادی اصولوں کی طرف پلٹ کر دیکھنے کا موقع ہے اور یہ باوقار انداز میں خود احتسابی کا موقع بھی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ جنگ کی اذیت ناک سختیوں و تباہ کاریوں اورکچھ کی دیگر پر برتری کے غلط نظریات کی راکھ سے اقوام متحدہ کی امید نے جنم لیا تھا،اس ادارے کے وجود نے ایک تاریخی ضروری تقاضا پورا کیا تھا وہ ضروری تقاضا یہ تھا کہ ’’آنے والی نسلوں کو جنگ کے عفریت سے بچایا جائے۔‘‘ اور مرد و زن، چھوٹی بڑی اقوام ہونے سے قطع نظر ،ان کے مساوی و بنیادی حقوق کے تحفظ وآبیاری کے لئے اپنے عہد کا اعادہ کرتے ہوئے، زیادہ آزادی کے ساتھ معیار زندگی بہتر بنانے کی جستجو کی جائے،اس ضمن میں ہمارے اقوام متحدہ نے طویل سفر طے کیا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ اس ادارے نے بنی نوع انسان کو ایک ہی نوع کے واقعات سے دوچار ہونے اور نتیجتاً تباہی سے بچانے میں مدد کی ہے، اس ادارے نے تخفیف اسلحہ، نوآبادیات کے خاتمے میں سہولت کاری کی، ماحولیاتی تبدیلیوں اور اسے لاحق خطرات سے نمٹنے میں معاونت فراہم کی، آزادیوں میں اضافے، مساوات اور ضابطوں پر مبنی دنیا کی تشکیل میں مدد فراہم کی، اور ترقی کے پائیدار اہداف کے ذریعے بھوک، بیماری اور غربت ختم کرنے کے لئے کام کیا لیکن ان خوشیوں کو مناتے ہوئے ہمیں اس کی کمزوریوں اور ناکامیوں کو نظرانداز نہیں کرنا، اس کی مجموعی کامیابیوں کے ساتھ ان ناکامیوں کو ملا کر دیکھنا ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ یہ تنظیم اسی حد تک اچھی ہے جس حد تک اس کی رکن ریاستیں اسے اچھا دیکھنے کی خواہاں ہیں۔ انہوںنے کہاکہ جموں وکشمیر اور فلسطین کے تنازعات اس ادارے کے دیرینہ اور واضح ترین ناکامیوں کے مظاہر میں سے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام استصواب رائے کے اپنے حق کے حصول کے لیے آج بھی منتظر ہیں، جس کا اقوام متحدہ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا۔ انہوںنے کہاکہ اقوام متحدہ پر آج گپ شپ کی جگہ ہونے کا طنز ہورہا ہے، اس کی قراردادوں اور فیصلوں کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، باہمی تعاون خاص طورپر سلامتی کونسل کے معاملے میں کم ترین سطح پر ہیانہوںنے کہاکہ طاقت کے بہیمانہ استعمال کے سامنے بے بسی دکھائی دیتی ہے، عالمی ماحول کے تحفظ اور ترقی کی خاطر مرتب کردہ کلیدی معاہدے اور عہدنامے اٹھا کر پھینکے جارہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ دوسری جنگ عظیم کا موجب بننے والی نسل پرستی اور فسطائی قوتیں غیرملکیوں اور اسلام سے نفرت کی شکل میں دوبارہ سر اٹھارہی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اگرچہ کورونا وبا کے مقابلے کے لئے ہم، بے پناہ عالمی تعاون دیکھ چکے ہیں لیکن یہ ادارہ بنی نوع انسان کو اس طرح متحد کرنے میں ناکام رہا ہے جیسا کہ اسے کیاجاسکتا تھا۔ انہوںنے کہاکہ میں آپ کی خیال آفرینی کے لئے گزارش کروں کہ ماضی کے ڈراونے منظر نامے کے دوبارہ رونما ہونے کا احساس رکھنے والا شاید میں واحد فرد نہیں؟انہوکںنے کہاکہ پاکستان ہمیشہ سے ہی کثیرالقومیتی اور اقوام متحدہ کے وجود کو ناگزیر سمجھنے والا ملک رہا ہے، ہم اس پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سات مرتبہ رہا، ایکوساک کی پانچ مرتبہ سربراہی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے علاوہ جی 77 کی قیادت کرچکا ہے۔ ہم سلامتی کونسل سمیت اصلاحات کے لئے جاری عمل میں متحرک وفعال کردارادا کررہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ رکن ریاست اور ہمارے باشندے، دونوں ہی اقوام متحدہ کے مقاصد اور اہداف کے حصول کو انسانیت کی خدمت کی نہایت عظیم روایت کے طورپر بہترین انداز میں انجام دینے میں اپنا گرانقدر حصہ ڈال رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان نے 26 ممالک کے 47 مشنز میں 2 لاکھ دستے مہیا کئے ہیں جن میں سے ہمارے 157 جوانمرد شہید ہوئے۔ انہوںنے کہاکہ دنیا میں سب سے بڑی تعدادا میں مہاجرین کی میزبانی کرنے والا بھی ہمارا ہی ملک ہے۔انہوکںنے کہاکہ فسطائی نظریات پر کاربند دیگر ایسے ممالک بھی ہیں جو اقوام متحدہ کے اصولوں کی سرعام دھجیاں اڑاتے ہیں اور محض اپنے حجم، قوت اور استحقاق کی غلط تشریح کے بل بوتے پر اعلی رتبے پانے کا بھی دعوی کرتے ہیں،ہم کوئی شکوہ وشکایت نہیں کررہے لیکن پاکستان اپنے حصے سے زیادہ وزن اٹھارہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اقوام متحدہ کی 75ہویں سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہاکہ میرا نقطہ نظر یہ تھا کہ آج اقوام متحدہ کی پچھترویں سالگرہ کے موقع پر ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں ان اصولوں اور مقاصد کو دیکھنا ہو گا جن کے باعث، اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی بنیاد رکھی گئی،دوسری جنگ عظیم کے بعد امن و استحکام اور تنازعات کا حل کیلئے ایک عالمی پلیٹ فارم کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جو اس ادارے کی بنیاد بنی ،آج اگر ہم نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سے ایسے تنازعات نظر آئیں گے جو حل طلب ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ دو تنازعات ان میں نمایاں طور پر دکھائی دیں گے جو اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہیں ایک مسئلہ کشمیر اور دوسرا مسئلہ فلسطین میں نے اپنے خطاب میں جہاں اقوام متحدہ کی کامیابیوں کا ذکر کیا وہاں ان کی تنازعات کی طرف توجہ دلائی ،اقوام متحدہ ہو، سلامتی کونسل ہو انہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر ان تنازعات کے حل کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو کیوں نہیں ہوئی؟ اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ
تبصرے بند ہیں.