قاہرہ (مانیٹر نگ ڈیسک )مصر میں پارلیمنٹ اور ملک کی قدیم اور سب سے بڑی دینی درس گاہ جامعہ الازھر میں ایک نئے مسودہ قانون پر تنازع سامنے آیا ہے۔متعدد ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کردہ ترمیمی بل میں ملک کی افتا کونسل کو جامعہ الازھر سے الگ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق نئے اور متنازع آئینی ترمیمی بل پر جامعہ الازھر نے سخت رد عمل ظاہر کیا اور کہا کہ دارالافتا کو جامعہ سے الگ کرنا الازھر کی تاریخی دینی اہمیت اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔ ملک کے قانون کے تحت کوئی بھی دینی ادارہ یا افتا کونسل اپنی پیشہ ورانہ ذامہ داریوںکی انجام دہی میں جامعہ الازھر سے الگ نہیں ہو سکتی۔ افتا کونسل کو جامعہ الاھر کے ماتحت رہتے ہوئے اپناکام کرنا ہو گا۔جامعہ الازھر کے سربراہ ڈاکٹر احمد الطیب نے پارلیمنٹ کے اسپیکر علی عبدالعال کو ایک مکتوب ارسال کیا جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ دارالافتا سے متعلق بل پر بحث کے دوران پارلیمنٹ میں موجود رہیں اور اس موقع پر الازھر کے موقف کو بھی سنا جائے۔ انہوں نے دارالافتا کونسل سے متعلق بل کو متنازع قرار دینے کے ساتھ ساتھ اسے دستوری غلطی قرار دیا ۔ ان کا کہنا تھاکہ افتا کونسل کی نئی اور آزاد تنظیم جامعہ الازھر کے ادارروں میں پھوٹ پیدا کرنے، اس کے اختیارات کو تقسیم کرنے اور جامعہ کے متوازی ایک ادارہ قائم کرنے کی کوشش ہے۔انہوں نے مزید لکھا کہ افتا کونسل کسی بھی شرعی فیصلے کے صدور سے قبل جامعہ الازھر کے سینیر اور ممتاز علما سے مشاورت کی پابند ہے۔ دینی علوم اور مسائل کے معاملے میں افتا کونسل اپنی رائے دینے سے قبل جامعہ الازھر سے رجوع کی پابند ہے۔ کوئی بھی اسلامی نوعیت کا فتوی جامعہ الازھر شریف کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت جامعہ الازھر نہ صرف مصر بلکہ پوری دنیا میں اسلامی علوم اور عربی زبان وثقافت کی نشرو اشاعت کا قابل اعتماد ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ افتا کونسل جو کہ جامعہ الازھر ہی کا ایک ماتحت ادارہ ہے کو آزادانہ ادارے کی شکل دینے سے ملک میں مذہبی انتشار پھیلنے کے خدشات پیدا ہو سکتے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.