توہین عدالت، سپریم کورٹ نے کھوسو کا معافی نامہ مسترد کردیا

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کی جانب سے توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی کی درخواست مستردکردی ہے اور اعلیٰ افسران کے تبادلوںکے بارے میں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ سے تمام متعلقہ ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔ انیتا تراب کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وفاقی سیکرٹریوںکو مدت سے پہلے تبدیل کرنے کے الزام میں نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو، سابق پرنسپل سیکرٹری صدیق اکبر، سیرت اصغر اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اللہ بخش لہڑی کو جاری توہین عدالت کے نوٹس کے مقدمے کی سماعت جمعرات کو جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے کی۔سابق وزیر اعظم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میر ہزار خان کھوسو اور اللہ بخش لہری عدالت سے غیر مشروط معافی کے طلب گار ہیں اور ان کی حد تک اس کیس کو نمٹا دیا جائے، عدالت نے استدعا مستردکر دی ۔جسٹس جواد نے کہا ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر وزیر اعظم سیکریٹریٹ میںکس طرح کام ہوتاہےسیرت اصغر نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے صرف شفقت نغمی کے تبادلے کی سفارش کی تھی اور اس فیصلے پر قائم ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم سیکریٹریٹ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے گزشتہ سماعت پر ریکارڈ طلب کیا گیا تھا لیکن وہ ابھی تک نہیں ملا جس پر عدالت نے ریکارڈ طلب کرتے ہوئے مزید سماعت 11 جولائی تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں من پسند افسران کو قواعد سے ہٹ کر ترقیاں دینے کیخلاف دائر درخواست پر سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اورسینٹرل سلیکشن بورڈکے چیئرمین کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔ وفاق کی جانب سے کسی کے پیش نہ ہونے اور اٹارنی جنرل آفس کی مقدمہ سے لاعلمی پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہارکیا ۔درخواست گزار اوریا مقبول جان کاموقف تھاکہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے ایسے افسران کو بھی ترقیاں دیں جس کے وہ مجاز نہ تھے،انھیں ترقی سے محروم رکھتے ہوئے لکھا گیا کہ اب یہ کسی پوسٹ کیلیے فٹ نہیں ہیں۔منظور نظر افسران کو ترقی دینے کیلیے اضافی پوسٹیں پیدا کی گئیں۔

تبصرے بند ہیں.