ممبئی: (دنیا نیوز) 26 نومبر 2008 کو دہشت گردوں نے ممبئی کے کئی مقامات پر ایک ساتھ حملہ کیا۔ شیوا جی ریلوے سٹیشن، تاج اور اوبرائے ہوٹل اور مقبول نیو پولڈ کیفے کو نشانہ بنایا گیا۔ دہشت گردوں نے کئی افراد کو گھنٹوں یرغمال بنائے رکھا۔ اس دوران دہشت گردوں اور بھارتی سیکورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔ واقعے میں ایک سو چھیاسٹھ افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے جس کے بعد بھارتی فوج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا اور واقعے میں ملوث ایک دہشت گرد اجمل قصاب کو زندہ پکڑنے کا دعویٰ کیا۔ بھارت نے آغاز ہی سے پاکستان کے ملوث ہونے کا راگ الاپنا شروع کر دیا تھا۔ اس وقت کے پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھی ممبئی حملوں میں پاکستانی سرزمین استعمال ہونے کا بیان داغا۔ انہوں نے سات ملزمان کی گرفتاری کا دعویٰ بھی کیا۔ بھارت نے ان حملوں کے حوالے 12 مختلف مقدمات درج ہوئے۔ سترہ فروری 2009کو اجمل قصاب کا اقبالی بیان قلم بند کیا گیا۔ 6 مئی 2010کو بھارتی عدالت نے اجمل قصاب کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور 21نومبر 2012کو اسے جیل میں خفیہ طور پر پھانسی دے دی گئی۔ پاکستان میں ممبئی حملہ کیس کا باقاعدہ ٹرائل 15اپریل 2009 کو شروع ہوا اور حافظ محمد سعید، ذکی الرحمان لکھوی سمیت 22افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے۔ بھارت نے آئی ایس آئی پر بھی الزامات لگائے لیکن کوئی ثبوت فراہم نہ کر سکا۔ پاکستانی جوڈیشل کمیشن کو پہلے بھارت نے چار گواہوں پر جرح سے روک دیا جبکہ ڈیڑھ سال بعد جرح کی اجازت دی گئی۔ ممبئی حملوں میں امریکی شہری ڈیوڈ ہیڈلے اور ابو جندل ذبیح الدین انصاری کے نام بھی ملزمان کے طور پر سامنے آئے۔ حال ہی میں بھارتی وزارت داخلہ میں انڈر سیکرٹری وی آر وی ایس کے بیان نے معاملے کو مزید مشکوک بنا دیا ہے جن کے مطابق ممبئی حملے اور 2001 میں ہونے والا پارلیمنٹ پر حملہ بھارت نے خود کروایا جن کا مقصد انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کے نفاذ کے لئے راہ ہموار کرنا تھا۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہےکہ بھارت کے پاس ایسے ٹھوس شواہد موجود نہیں جن پر پاکستان میں گرفتار ملزمان کو سزا دی جا سکے۔
تبصرے بند ہیں.