سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں 3 سال کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔عدالتِ عظمیٰ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کر دیا، چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کیس کی سماعت کی۔یہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا پہلا ازخود نوٹس ہے۔چیف جسٹس نے اپنے حکم میں کہا کہ درخواست کو 184(3) کے تحت ازخود نوٹس میں تبدیل کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزیرِ اعظم کو آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا اختیار ہی نہیں ہے، صرف صدرِ مملکت ہی یہ توسیع کر سکتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے عدالتِ عظمیٰ کو بتایا کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع صدر کی منظوری کے بعد کی گئی۔سپریم کورٹ نے آرمی چیف کےخلاف درخواست واپس لینے کی درخواست مسترد کر دی۔درخواست گزار ریاض حنیف راہی نے عدالت سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی تھی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہاتھ سے لکھی ہوئی درخواست کے ساتھ کوئی بیانِ حلفی بھی موجود نہیں جبکہ درخواست گزار اور ایڈووکیٹ ان ریکارڈ کمرۂ عدالت میں موجود نہیں، ہم واپس لینے کی درخواست کو نہیں سنیں گے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی کابینہ سے سمری کی منظوری بھی لی گئی تھی، پشاور ہائی کورٹ میں بھی اس طرح کی درخواست دائر ہوئی تھی جو واپس لے لی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ آرمی چیف کی توسیع کا حکم جاری نہیں کیا، کابینہ کی منظوری کے بعد صدر کی جانب سے آرمی چیف کی توسیع کا سابقہ حکم ہی قانونی ہو گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ صدر نے 19 اگست کو آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی منظوری دی، 21 اگست کو وزیرِ اعظم نے کیسے منظوری دے دی؟انہوں نے کہا کہ سمجھ نہیں آ رہا، صدر کی منظوری کے بعد وزیرِ اعظم نے دوبارہ کیوں منظوری دی؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد وزیرِ اعظم نے دستخط کیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ اور وزیرِ اعظم کی منظوری کے بعد کیا صدر نے دوبارہ منظوری دی؟ حتمی منظوری تو صدر نے دینی ہوتی ہے، صدر نے کابینہ سے پہلے جو منظوری دی وہ شاید قانون کے مطابق صحیح نہ ہو۔ٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم صدرِ مملکت سے دوبارہ منظوری لے سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی کابینہ کے صرف 11 وزراء نے آرمی چیف کی توسیع کی منظوری دی، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کابینہ کی اکثریت نے منظوری دی۔انہوں نے مزید کہا کہ 19 تاریخ کو وزیرِ اعظم کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کا اختیار نہیں، پھر معلوم ہوتا ہے کہ صدر اور زیرِ اعظم دونوں کا اختیار نہیں، فیصلہ کابینہ نے کرنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ 21 اگست کو معاملہ کابینہ کو بھجوا دیا جاتا ہے، وفاقی کابینہ کے صرف11 وزراء نے آرمی چیف کی توسیع کی منظوری دی، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کابینہ کی اکثریت نے منظوری دی۔انہوں نے کہا کہ 25 میں سے11 وزراء کے ناموں کے سامنے ’یس‘ لکھا گیا، جمہوریت میں یہ فیصلے اکثریتِ رائے سے ہوتے ہیں، جن ارکان نے جواب نہیں دیا، ان کا انتظار کرنا چاہیے تھا، ان ارکان نے ’نہ‘ بھی تو نہیں کی، کیا حکومت کابینہ ارکان کی خاموشی کو ’ہاں‘ سمجھتی ہے؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نوٹیفکیشن کابینہ سے منظوری کے بعد وزیرِ اعظم سے ہوتے ہوئے صدر مملکت تک نہیں جانا چاہیے تھا؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 255 کے تحت ازسرِ نو تقرری کا اختیار نہیں توسیع کا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سمری میں توسیع کا لفظ استعمال کیا گیا جبکہ ازسرِنو تقرری کی جا رہی ہے، کابینہ نے جاری شدہ نوٹیفکیشن کی تاریخ سے توسیع کی منظوری دی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون میں توسیع کے لیے کوئی شِق ہے، کابینہ میں اس توسیع کی کوئی وجوہات زیرِ بحث نہیں آئیں، کیا کابینہ نے توسیع کی منظوری دیتے ہوئے اپنا ذہن استعمال کیا؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرمی چیف کی توسیع کی ٹرم فکس کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ اندازہ کیسے لگایا گیا کہ 3 سال تک ہنگامی حالات رہیں گے، ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ 3 سال کی ابتدائی آرمی چیف کی توسیع کس رول کے تحت ہوئی؟ آرمی چیف کی توسیع کا رول آپ نہیں دکھا رہے۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ صدرِ مملکت نے دوبارہ کوئی منظوری نہیں دی۔چیف جسٹس نے کہا کہ 21 اگست کو کابینہ کے سامنے آپ نے صدر صاحب کے نوٹیفکیشن کو رکھ دیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزارتِ دفاع اور اٹارنی جنرل کو اس حوالے سے نوٹس جاری کر دیئے اور کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں وزیرِ اعظم عمران خان نے 3 سال کی توسیع کی تھی جس کا نوٹیفکیشن رواں برس 19 اگست کو جاری کیا گیا تھا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع پر سماعت کے حوالے سے سپریم کورٹ نے حکم نامہ بھی جاری کیا ہے۔حکم نامے میں عدالتِ عظمیٰ نے کہا ہے کہ کیس کو مفادِ عامہ کا معاملہ قرار دیتے ہوئے سماعت کے لیے منظور کیا، جس کی سماعت کے دوران آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی سمری پیش کی گئی۔حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم نے 19 اگست کو اپنے طور پر تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، نوٹیفکیشن کے بعد غلطی کا احساس ہوا اور وزیرِ اعظم نے صدر مملکت کو سمری بھجوائی۔حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدرِ پاکستان نے 19 اگست کو ہی سمری کی منظوری دے دی، بتایا گیا کہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتِ حال کے پیشِ نظر توسیع دی جا رہی ہے۔
تبصرے بند ہیں.