اسلام آباد (مانیٹر نگ ڈیسک)اسلام آباد ہائی کورٹ نے امریکی خاتون سنتھیا ڈی رچی کو ملک بدر کرنے کے خلاف کیس میں امریکی خاتون کے بیان میں تبدیلی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزارت داخلہ سے بزنس ویزہ دینے کی پالیسی طلب کرلی جبکہ عدالت نے سنتھیا رچی کی رحمان ملک کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست ٹرائل کورٹ کو واپس سننے کا حکم دیا ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس سے پہلے اس نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ وہ خیبر پختونخواہ حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ اب وہ کہہ رہی ہے کسی ادارے کے ساتھ مل کر جام نہیں کر رہی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ 13ستمبر 2017 کو شگاگو سے سنتھیا کو 30 روز کے لیے ویزہ جاری کیا گیا تھا۔ وکیل سر دار لطیف کھوسہ نے کہاکہ آج کی تاریخ میں سنتھیا ڈی رچی کے پاس کوئی ویزہ نہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیا باہر دنیا سے کوئی بھی آجائے تو وہ جو مرضی کرتا رہے؟ ۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیا سنتھیا موجودہ وزیر اعظم کے خلاف کوئی بیان دے تو وزارت داخلہ کچھ نہیں کرے گی؟ ۔چیف جسٹس نے وزارت داخلہ کے نمائندے سے استفسار کیاکہ یہ آپ نے کیسا آرڈر لکھا ہے؟ بزنس ویزہ کا قانون کیا ہے؟ پڑھ کر بتائیں۔ نمائندہ وزارت داخلہ نے کہاکہ ابھی میرے پاس بک نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وزارت داخلہ نے اپنے عمل سے خود کو ایکسپوز کیا ہے، آپ خود مان ریے ہیں کہ ورک ویزہ وائلیشن آف لا ہے ۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ وزارت داخلہ کو قانون کا ہی نہیں پتہ یہ الارمنگ ہے۔ نمائندہ وزارت داخلہ نے کہاکہ ڈپٹی سیکرٹری ہوں ابھی میرے پاس قانون کی متعلقہ کتاب نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کوئی بھی غیر ملکی آنا چاہے تو ریاست پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کردی
تبصرے بند ہیں.