واشنگٹن (فارن ڈیسک)حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ امریکا میں پھیلنے والا کورونا وائرس گزشتہ برس دسمبر میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے وائرس سے زیادہ متعدی ہے اور امریکا میں موجود وائرس میں تبدیلیاں نہ ہوئیں تو مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سائنس جرنل میں شائع ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکا میں پایا جانے والا وائرس ووہان میں شروع ہونے والے وائرس سے مختلف ہے اور یہ زیادہ متعدی بھی معلوم ہوتا ہے، سائنس جرنل بائیورکس میں شائع 33 صفحات پر مشتمل تحقیقی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مارچ کے آغاز تک ایشیا بھر میں پھیلنے والا وائرس ووہان میں پھیلنے والے وائرس جیسا ہی تھا، تاہم مارچ کے وسط تک چین کے بعد دیگر ایشیائی ممالک میں پھیلنے والے وائرس میں تبدیلیاں ہونا شروع ہوئیں۔رپورٹ میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا میں پھیلنے والے ترمیم شدہ زیادہ متعدی وائرس میں موسم گرما کے دوران موسمی فلو کی طرح تبدیلیاں نہ ہوئیں اور اس کی شدت کم نہ ہوئی تو یہ مزید خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور وائرس سے بچاو¿ کے لیے بنائی گئی ممکنہ ویکسین کے اثر کو بھی یہ محدود کر سکتا ہے، ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ کورونا سے بچاو¿ کے لیے فوری طور پر ویکسین کو تیار کرنے سمیت اینٹی باڈی تھراپی کے علاج کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔مذکورہ رپورٹ امریکی حکومت کے ادار لاس آلموس نیشنل لیبارٹری کی جانب سے تیار کی گئی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اب تک کورونا وائرس میں 14 تبدیلیاں ریکارڈ کی گئیں ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا میں ہونے و الی تبدیلیاں وسیع تناظر میں وبا کے ابتدائی نظام کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں اور یہ وائرس کی روکتھام کے لیے جدوجہد کرنے میں بھی مدد فراہم کر سکتی ہیں۔ماہرین نے بتایا کہ تبدیل شدہ وائرس میں ایک نئی تبدیلی کی شناخت D614G کے طور پر ہوئی اور یہ تبدیلی ابتدائی طور پر کورونا میں فروری کے آغاز میں یورپ میں ہوئی اور جب وہاں سے یہ وائرس دوسری جگہ منتقل ہوا تو اسی تبدیلی کے ساتھ ہی ہوا، رپورٹ میں ماہرین نے مقامی سطح پر پھیلنے والے وائرس کے حوالے سے ایسے ثبوت بھی پیش کیے، جن سے پتہ چلتا ہے کہ مقامی سطح پر وائرس کا پھیلاو¿ زیادہ ہے۔اس تحقیق سے چند دن قبل برطانیہ کی کارنیل یونیورسٹی کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ دنیا میں پھیلنے والے کورونا میں کچھ ایسی تبدیلیوں کا انکشاف ہوا ہے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اندازوں سے زیادہ متعدی ہے، برطانوی ماہرین نے اس وائرس کی ساخت کو دیکھا گیا جو کووڈ 19 کا باعث بنتا ہے اور اس میں ایک ایسا منفرد فیچر دریافت کیا جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ یہ لوگوں کے درمیان اتنی آسانی سے کیسے منتقل ہوجاتا ہے، ماہرین نے وائرس کے اسپائیک پروٹین کے ایک حصے کو شناخت کیا جو اسے کسی خلیے کو متاثر کرنے میں مدد دیتا ہے اور اس حصے کے 4 امینو ایسڈز کا سیکونس تیار کیا گیا جو دیگر انسانی کورونا وائرسز سے مختلف تھے۔محققین نے دریافت کیا کہ نئے نوول کورونا وائرس کا بیشتر حصہ 2002 کے سارس وائرس سے ملتا جلتا ہے جو جان لیوا تو تھا مگر وہ اتنا متعدی نہیں تھا جبکہ یہ نیا وائرس جان لیوا اور متعدی دونوں ہے۔اس سے قبل مارچ میں جرمنی کی جامعات نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے دریافت کرلیا ہے کہ یہ وائرس کس وقت سب سے زیادہ متعدی (پھیلتا) ہے۔جرمنی میں کی جانے والی تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا تھا یہ وائرس بہت آسانی سے پھیل رہا ہے، کیونکہ بیشتر افراد اس وقت اسے پھیلا رہے ہوتے ہیں، جب اس کی علامات معمولی اور نزلہ زکام جیسی ہوتی ہیں۔محققین نے کووڈ 19 کے شکار 9 افراد کے متعدد نمونوں کا تجزیہ کیا تھا جن کا علاج میونخ کے ایک ہسپتال میں ہورہا تھا اور ان سب میں اس کی شدت معتدل تھی ، یہ سب مریض جوان یا درمیانی عمر کے تھے اور کسی اور مرض کے شکار نہیں تھے، محققین نے ان کے تھوک، خون، پیشاب، بلغم اور فضلے کے نمونے انفیکشن کے مختلف مراحل میں اکٹھے کیے اور پھر ان کا تجزیہ کیا تھا ، مریضوں کے حلق سے لیے گئے نمونوں سے انکشاف ہوا کہ یہ وائرس جب کسی فرد کے جسم میں داخل ہوتا ہے تو پہلے ہفتے میں سب سے زیادہ متعدی ہوتا ہے، جبکہ خون اور پیشاب کے نمونوں میں وائرس کے کسی قسم کے آثار دریافت نہیں ہوئے تاہم فضلے میں وائرل این اے موجود تھا۔
تبصرے بند ہیں.