العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور، سزا 8 ہفتے کیلئے معطل

اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس کیس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی 8 ہفتوں کیلئے ضمانت منظور کر لی ہے۔ عدالت کی جانب سے 20، 20 لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے میاں نواز شریف کی درخواست ضمانت پر محفوظ فیصلہ سنایا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر 8 ہفتے تک علاج نہ ہوا تو صوبائی حکومت سے رابطہ کریں۔ 8 ہفتے بعد پنجاب حکومت سے رابطہ نہیں کریں گے تو جیل جانا ہوگا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت ہوئی، وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ نواز شریف سروسز ہسپتال لاہور میں علاج سے مطمئن ہیں، ان کا پنجاب حکومت پر اظہار اعتماد ہے۔جسٹس عامر فاروق نے سردار عثمان بزدار سے کہا کہ آپ کو بلانے کا مقصد تمام بیمار قیدیوں کیلئے اقدامات کرنا ہیں۔ جس پر وزیراعلی پنجاب نے کہا کہ میں خود بھی وکیل ہوں، ایک سال میں 8 جیلوں کا دورہ کیا، پنجاب کی جیلوں میں اصلاحات کا پیکج صوبائی کابینہ میں ہے۔ عدالت نے وزیراعلی سے جیلوں کے حوالے سے رپورٹ لے کر انہیں واپس جانے کی اجازت دے دی۔میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی حالت کو انتہائی تشویشناک قرار دیا اور کہا نواز شریف کو دل، گردوں کاعارضہ ہے، نواز شریف کو پلیٹ لیٹس کا مسئلہ درپیش ہے۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ نواز شریف کی پلیٹ لیٹس کی تعداد بہت کم ہے، دوران علاج نواز شریف کو ہارٹ اٹیک کی شکایت ہوئی، عام حالت میں پلیٹ لیٹس کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہونی چاہیئے۔ڈاکٹر نے کہا ایک بیماری کا حل تلاش کرتے ہیں تو دوسری سامنے آ جاتی ہے، انتہائی پروفیشنل ڈاکٹرز پر مشتمل بورڈ بنایا گیا، نواز شریف کے پلیٹ لیٹس اس وقت 30 ہزار ہیں، نواز شریف کی حالت خطرے میں ہے، پلیٹ لیٹس بڑھانے کی دوا دی تو نواز شریف کو ہارٹ اٹیک ہوگیا۔

 

عدالت نے ڈاکٹر عدنان سے استفسار کیا آپ ذاتی معالج ہیں، رپورٹ پڑھی ؟ جس پر نواز شریف کے ذاتی معالج نے کہا نواز شریف کی حالت انتہائی تشویشناک ہے، وہ زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں، خدشہ ہے انہیں‌ کھو نہ دیں، نواز شریف کو جان بچانے والی ادویات دی جا رہی ہیں، بورڈ نے نواز شریف کی باڈی سکین کا فیصلہ کیا ہے، نواز شریف کو پہلے کبھی اس حالت میں نہیں دیکھا۔ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے عدالت کو بتایا کہ پلیٹ لیٹس کی تعداد میں کمی کی وجوہات معلوم نہیں ہوسکیں، 20 سال سے نواز شریف کا معالج ہوں، ان کی حالت تشویشناک ہے، نواز شریف دل، گردے، اسٹروک، شریانوں کے سکڑنے کی بیماریوں کا شکار ہیں۔جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا اگر نواز شریف کچھ ماہ میں ٹھیک ہو جاتے ہیں تو سزا کا کیا ہوگا ؟ جس پر وکیل نے کہا نیب کے پاس اختیار ہوگا، ضمانت منسوخی کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا آرٹیکل 401 کے تحت ایگزیکٹو خود ایسے کام کیوں نہیں کرتا ؟ کیا اس میں کوئی رکاوٹ ہے ؟ حکومت کے پاس بیمار قیدی کیلئے اختیارات موجود ہیں۔نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیرون ملک علاج اور مستقل ضمانت کی مخالفت کی اور کہا نواز شریف کو مخصوص مدت کیلئے ضمانت دی جا سکتی ہے۔ نیب نے موقف اپنایا کہ نواز شریف کی صحت پر ڈاکٹرز کی رائے محترم، وہی ایکسپرٹ ہیں، ڈاکٹرز نے یہ نہیں کہا نواز شریف کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔ جس پر عدالت نے کہا اس کا ذکر ہی نہیں ہوا، آپ صرف بیماری پر بات کریں۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب نے کہا کہ سپریم کورٹ نے علاج کیلئے 6 ہفتے کی سزا معطل کی تھی، سپریم کورٹ نے سزا معطلی کے وقت کچھ پیرا میٹرز طے کیے تھے، حکومت نے کہا اگر بیرون ملک سے ڈاکٹر درکار ہوا تو وہ بھی منگوایا جائے گا، نواز شریف کو مخصوص مدت کیلئے ضمانت دی جاسکتی ہے، مخصوص مدت کے علاج کیلئے ضمانت کا طریقہ کار سپریم کورٹ نے بنایا۔نیب نے کہا دوسری صورت ہے درخواست ضمانت التوا میں رکھی جائے، 6 ہفتے تک نواز شریف کی تازہ میڈیکل رپورٹ منگوالی جائے۔ عدالت نے نیب سے استفسار کیا ہفتے کے روز تو آپ نے انسانی بنیادوں پر ضمانت کی مخالفت نہ کرنے کا بیان دیا۔عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو روسٹرم پر بلالیا اور پوچھا اسلام آباد کے قیدیوں پر ایسی صورت میں فیصلہ کون کرتا ہے ؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا صوبائی حکومت ہی اسلام آباد کے قیدیوں پر فیصلہ کرتی ہے، اسلام آباد میں جیل ہے نہ ہی قوانین۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا اسلام آباد میں جیل بنانے کا کسی نے سوچا ہی نہیں، اب جیل بن رہی ہے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، اسلام آباد میں جیل جلدی بنائیں تا کہ جلد آباد ہو جائے۔جسٹس محسن اختر نے کہا نیب کے سوا وفاق، صوبائی حکومت اپنے موقف میں واضح ہی نہیں، وہ فیصلہ ہی نہیں کرسکے کہ کیا موقف اختیار کرنا ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا نواز شریف کیس میں ہمارے پاس 4 آپشنز ہیں، نمبر ایک نواز شریف کی مستقل ضمانت منظور کرلیں، نمبر دو مخصوص مدت کیلئے ضمانت دے دیں، نمبر تین کیس پنجاب حکومت کو بھیج دیں، نمبر چار درخواست ضمانت مسترد کر دیں، پہلی تین پر غور کریں چار نمبر والی کو چھوڑ دیں۔نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے ضمانت کا معاملہ ایگزیکٹوز کو بھجوانے کی مخالفت کی اور کہا ایک سیاسی حکومت کو یہ معاملہ بھجوانا جو ہماری شدید مخالف ہے زیادہ مناسب نہیں ہو گا۔ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے، ڈاکٹرز بھی صرف اپنی کوشش ہی کرتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.