کراچی: اسٹیٹ بینک کی مداخلت نے جمعہ کو بھی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر کو استحکام بخشا۔ ڈالر کی قلت دور ہونے کی وجہ سے اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی گھبراہٹ کی فضا ختم ہوئی اور روپے کی قدر ڈالر کی نسبت30 پیسے بڑھ گئی جس کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر گھٹ کر103.20 روپے پر آگئی، اسی طرح تجارتی بینکوں کے درمیان امریکی ڈالر کا لین دین بھی10 پیسے کی کمی سے100.70 روپے رہا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں بیشتر اشیا کے لیے درآمدات پر انحصار کیا جاتا ہے لہٰذا امریکی ڈالر کی قدر بڑھنے سے براہ راست ان درآمدی اشیا کی لاگت میں اضافے کے خطرات پیدا ہوجاتے ہیں، پاکستان میں مختلف غذائی اشیا، موبائل فونز ودیگر الیکٹرانک مصنوعات ڈالر کی قدر میں اضافے سے براہ راست اثرانداز ہوتی ہیں۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کچھ عرصے قبل امریکی ڈالر کی قدر80 روپے تھی توپاکستان پر غیرملکی قرضوں کی مالیت 60 ارب ڈالر (4 ہزار800 ارب روپے) تھی لیکن جب ڈالر کی قدر100 روپے کی سطح تک پہنچ گئی تو غیرملکی قرضوں کی مالیت بھی بڑھ کر6 ہزار ارب روپے کی بلند سطح تک پہنچ گئی ہے۔ صنعتی شعبے کا کہنا ہے کہ ڈالر کی نسبت پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے رحجان سے برآمدات کو فائدہ کم اور معیشت کو نقصانات زیادہ ہوں گے۔ اشیائے خوردونوش، گرم مصالحہ جات کے ایک بڑے درآمدکنندہ اور جوڑیا بازار ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر جعفر کوڑیا نے کہا کہ مقامی صنعت کے مختلف شعبے ہوں یا پھر شعبہ زراعت، ان شعبوں میں تیار ہونے والی مصنوعات کا کچھ نہ کچھ حصہ درآمدات پر منحصر ہوتا ہے، اسی طرح الیکٹرانکس مصنوعات جن سب سے زیادہ انحصار درآمدات پر ہے ان میں موبائل فون، جوسر، گرائینڈر، اے سی اور دیگر کچن اشیا شامل ہیں جن کا عمومی استعمال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجوہ میں خراب معاشی حالت تو ہیں ہی مگر اس میں سٹے بازوں کا بھی اہم کردار شامل ہے جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، حکومت اور متعلقہ ریگولیٹر کو اوپن مارکیٹ میں امریکی کرنسی کی زائد قیمت کے ساتھ انٹربینک مارکیٹ میں مہنگی فارورڈ بکنگ کے مسئلے کا حل بھی نکالنا ہوگا۔
تبصرے بند ہیں.