کراچی: افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے ٹائلیٹ سوپ کی بڑھتی ہوئی اسمگلنگ، خام مال پربھاری کسٹم ڈیوٹی وٹیکسز اور انفرااسٹرکچرل مسائل گزشتہ10 سال سے 311 سوپ انڈسٹریل یونٹس کے توسیعی منصوبے میں رکاوٹ کا باعث بن گئے ہیں۔ پاکستان میں فی الوقت صابن کی سالانہ2.5 لاکھ ٹن کی کھپت ہے جبکہ مقامی صنعتوں کی پیداواری استعداد 1 لاکھ 70 ہزار ٹن سالانہ ہے، ملک میں تیار ہونے والے صابن میں سے صرف5 ہزار ٹن ٹائلیٹ اور لانڈری صابن افغانستان اور افریقی ممالک کو برآمد کیا جارہا ہے، پاکستانی سوپ انڈسٹری اپنی ضروریات کا95 فیصد خام مال جن میں پام ایسڈ آئل، پام آئل، ایسڈ آئل، پام کرنل آئل اور کوکونٹ آئل شامل ہیں کی درآمدات صرف انڈونیشیا اور ملائیشیا سے کرتی ہے۔ پاکستان سوپ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عامرعبداللہ ذکی نے استفسار پر اس امر کی تصدیق کی کہ حکومت کی عدم توجہی اور اے ٹی ٹی کے ذریعے سستی لاگت پر غیرملکی صابن وڈٹرجینٹس کی اسمگلنگ جیسے عوامل نے صابن سازی کی مقامی صنعت کو مایوس کردیا ہے حالانکہ اس شعبے میں سرمایہ کاری اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کی وسیع گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی سوپ مینوفیکچررز حکومت سے کسی قسم کی کوئی زرتلافی حاصل کرنے کا مطالبہ نہیں کرتے لیکن یہ شعبہ حکومت اور پالیسی سازوں کی توجہ کا طلب گار ضرور ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ مالی سال 2013-14 کے وفاقی بجٹ میں دنیا کے بیشتر ممالک کی طرز پر سوپ انڈسٹری کے تمام درآمدی خام مال پر کسٹم ڈیوٹی وٹیکسوں کی شرح میں کمی کا اعلان کرے۔
تبصرے بند ہیں.