اسرائیل کی حکومت نے منگل کے روز یہودیوں کو مسجدِ الا قصیٰ میں خاموش عبادت کرنے کی اجازت دی،ذرائع
یروشلم (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 26 اگست2021ء) اسرائیل کی حکومت نے یہودیوں کو مسجدِ الاقصیٰ کے احاطے میں عبادت کی اجازت دے دی۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی حکومت نے منگل کے روز یہودیوں کو مسجدِ الا قصیٰ میں خاموش عبادت کرنے کی اجازت دی، جس کے بعد فلسطینی مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔سیاسی مبصرین کے مطابق یہودیوں کو عبادت کی اجازت دینے کے بعد اس مقدس مقام کی حیثیت تبدیل ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے کیونکہ اسرائیلی حکومت مسجد الاقصیٰ کی خصوصی حیثیت کو مذہبی آزادی کی آڑ میں ختم کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس کے جس احاطے میں یہودیوں کو خاموشی سے عبادت کرنے کی اجازت دے اُسے یہودی حرم قدسی شریف کے نام سے جانتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق یہ جگہ مقبوضہ بیت المقدس کا حصہ ہے، غیر مسلموں کو اس احاطے میں داخلے کی اجازت صرف مختص کردہ اوقات میں دی جاتی ہے اور وہ اس مقام پر عبادت نہیں کرسکتے۔دوسری طرف فلسطینی محکمہ اوقاف اورمذہبی امور کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ قبلہ اول پرمسلمانوں کے سوا کسی اور قوم کا کوئی حق نہیں۔ قبلہ اول کو نقصان پہنچا تو اس کا ذمہ دار اسرائیل ہوگا۔ مسجد اقصیٰ کا 144 دونم کا رقبہ خالص قبلہ اول کے لیے وقف ہے جسے کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس پر کسی دوسری قوم کا کوئی حق ہے۔فلسطینی محکمہ اوقاف کی طرف سے یہ بیان اسرائیلی حکام کی طرف سے اس اقدام کے رد عمل میں جاری کیا گیا ہے جس میں صہیونی حکام نے پولیس سے یہودی آباد کاروں کو قبلہ اول پر دھاووں سے روکنے اور تلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسومات کی ادائیگی سے منع کرنے کی وضاحت طلب کی ہے۔
تبصرے بند ہیں.